شعبان المعظم شب برا ءت اور عبادات

805
0
Share:

شعبان المعظم اور شب برا ءت

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن

شعبان المعظم اسلام کی رو سے ایک مقدّس اور متبرک مہینہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:’’اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمیں برکت عطا فرما اور (برکتوں کے ماحول میں)ہمیں رمضان تک پہنچا،(شعب الایمان:3815)‘‘۔

(2) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان، اللہ کا مہینہ ہے، شعبان،میرا مہینہ ہے، شعبان پاک کرنے والا ہے اور رمضان گناہوں کو معاف کرنے والا ہے(یعنی اس کا سبب ہے)، (کنزالعمال: 6466)‘‘۔ یہی سبب ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’ میں نے (کبھی ) نہیں دیکھا کہ سوائے رمضان کے رسول اللہ ﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اورآپ سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان میں رکھتے تھے ، (سنن ابی داؤد: 300)‘‘

شعبان المعظم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے احادیث روایت کی گئی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’میں نے مشاہد ہ کیا ہے کہ آپ (رمضان المبارک کے علاوہ) کسی بھی دوسرے مہینے کے مقابلے میں شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا(عظیم المرتبت) مہینہ ہے کہ لوگ اس سے غافل ہیں ، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں (بندوں کے) اَعمال ربُّ العٰلمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ، تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمالِ(صالحہ) اس حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں،(سنن نسائی:2356)‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبیِ کریم ﷺ پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا نفل روزے کے لیے آپ کو شعبان تمام مہینوں سے زیادہ پسند ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲتعالیٰ اس سال وفات پانے والے تمام افراد کے نام(قبضِ ارواح پر مامور فرشتوں کے رجسٹر میں) لکھ دیتاہے، تو میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میری وفات (اگر مقدر ہے تو) روزے کی حالت میں نصیب ہو،(مسند ابی یعلیٰ:4890)‘‘

شعبان کی پندرہویں شب:

بعض تفاسیر میں اسے ’’لَیْلَۃُ الْبَرَائَۃ‘‘، ’’لَیْلَۃُ الرَّحْمَۃ‘‘ ،’’لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘اور ’’لَیْلَۃُ الصَّکّ‘‘بھی کہا گیا ہے ،قرآنِ کریم میں ’’لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘کاذکرآیاہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’حٓمٓ ، روشن کتاب کی قسم ، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ، بے شک ہم عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں ، اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتاہے ، (یہ) ہمارے پاس سے حکم ہوتاہے ، بے شک ہم ہی (رسولوں) کو بھیجنے والے ہیں ،(یہ) آپ کے رب کی طرف سے رحمت(ہے) ، بے شک وہ خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے، (الدخان:1تا6)‘‘

جمہور مفسرین کے نزدیک ’’برکت والی رات‘‘ سے مراد ’’لیلۃُ القدر‘‘ ہے ، تاہم عکرمہ اور بعض مفسرین نے اس سے ’’شبِ براءت‘‘ مراد لی ہے، لیکن پہلا قول ہی راجح ہے ۔ جن مفسرین نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے، انہوں نے دونوں اقوال میں تطبیق کی ہے۔

شعبان المعظم کی پندرہویں شب یعنی شب براءت کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ شعبان کی درمیانی(پندرہویں) شب کوخاص توجہ فرماتاہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ (مغفرت کے طلب گار) اپنے سب بندوں کو بخش دیتاہے،(سنن ابن ماجہ:1390)‘‘

شُعُبُ الایمان کی حدیث میں ہے :(2)’’اس شب مومن کی مغفرت ہوتی ہے، کافر کو مہلت دی جاتی ہے اور کینہ پرور کو چھوڑ دیا جاتاہے‘‘۔مجرم کو ڈھیل دینا بھی ایک طرح کی سزا ہے تاکہ وہ سرکشی میں انتہا کو پہنچ کراشدِّ عذاب کا سزاوار قرارپائے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(1):’’ہم تواُن کو صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ اُن کے گناہ بڑھتے چلے جائیں اور اُن کے لیے ذلّت آمیز عذاب ہے، (آل عمران: 178)‘‘۔(2):’’بے شک کافر اپنی چالیں چل رہے ہیں اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرمارہا ہوں،سو آپ کافروں کو ڈھیل دے دیں (اور )اُن کو تھوڑی مہلت دیں، (الطارق: 15-17)‘‘

(3)حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب شعبان کی درمیانی شب آئے، تورات کو نوافل پڑھو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ (اس رات کو) غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا کی طرف نزولِ اِجلال فرماتاہے (جیساکہ اس کی شان کے لائق ہے )اور ارشاد فرماتاہے:کیا ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں ، ہے کوئی رزق (کی کشادگی) کا طلب گار کہ میں اسے رزقِ (واسع) عطا کروں، ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کی مصیبت کا درماں کروں، الغرض بندوں کی تمام حاجات کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیضانِ رحمت طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے، (سنن ابن ماجہ:1388)‘‘

(4)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’ شعبان کی درمیانی شب رسول اللہ ﷺ میرے بستر سے نکل گئے ، (آگے چل کر) فرماتی ہیں:مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ کسی زوجۂ مطہرہ کے پاس گئے ہیں،میں گھر میں آپ کو تلاش کرنے لگی، تو میرے پائوں آپ کے مبارک قدموں پر پڑے ،آپ حالتِ سجدہ میں تھے،مجھے یاد ہے، آپ فرمارہے تھے: (اے اللہ ! )میرے جسم وجاں تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں ، میرا دل تجھ پر ایمان لایا،میں تیری تمام نعمتوں کا اعتراف کرتاہوں، میں نے اپنے آپ پر زیادتی کی ،سو تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے ،میںتیری سزا سے بچ کر تیرے عفووکرم کی پناہ میں آتاہوں، میں تیرے غضب سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتاہوں ، میں تیری ناراضی سے بچ کرتیری رضا کی پناہ میں آتاہوں، میں تیری گرفت سے بچنے کے لیے تیری ہی پناہ میں آتاہوں، (اے اللہ!) میں تیری حمد وثناکا حق ادا نہیں کرسکا، تیری کامل ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی ،حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: نبی کریم ﷺ مسلسل عبادت میں مشغول رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور کثرتِ عبادت سے آپ کے پائوں مبارک پر ورم آگیا تھا، میں آپ کے پائوں مَل رہی تھی ، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ نے تو اپنے آپ کو تھکادیا ، اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو پہلے ہی مغفرتِ کُلّی کی یقینی نوید سنا رکھی ہے ، آپ پر تو اللہ تعالیٰ کے بے شماررحمتیں ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا اے عائشہ!، تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں،تمہیں معلوم ہے آج کی رات میں کیاکیا برکتیں ہیں، انہوں نے عرض کی: حضور! بتائیے ،تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس رات کو(آنے والے سال)کے دوران ) بنی آدم کے ہر پیدا ہونے والے بچے اورہر وفات پانے والے شخص کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اس رات کو بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں اُن کا رزق نازل ہوتا ہے، حضرت عائشہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، میں نے عرض کی:یارسول اللہ! اور آپ بھی نہیں، تو نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اورتین مرتبہ فرمایا:میں بھی نہیں سوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں ڈھانپ لے، (فضائل الاوقات:26، الدرالمنثورللسیوطی،جلد:7،ص:350)‘‘

اس طویل حدیث سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سیدالمرسلین رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور کس قدر عَجز ونیاز فرماتے تھے ،آپ کے دل پر اللہ تعالیٰ کی جلالت کا کتنا غلبہ تھا، آپ کس قدر انہماک سے عبادت کرتے تھے اور اتنی کثرتِ عبادت کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار رہتے تھے ،آپ ﷺ امت کو تعلیم دینا چاہتے تھے کہ اللہ کا بندہ کثرتِ عبادت سے چاہے انتہائی بلندی پر پہنچ جائے ،لیکن اُسے اپنی عبادت اور تقوے پر ناز نہیں کرنا چاہیے ،بندہ عبادت کر کے اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا، یہ تو بندگی کا فریضہ ہے ، ان عبادات کو شرفِ قبولیت عطا کرنا اور انعامات سے نوازنا پھر بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل وکرم پر موقوف ہے۔جو لوگ فرطِ عقیدت میں شانِ الوہیت اور مقامِ نبوت کا تقابل کرتے ہیں، انہیں صرف ایک بار نہیں ،بلکہ بار بار نبی کریم ﷺ کے تواضع اورعجز وانکسار سے لبریزاِن مبارک کلمات کو پڑھتے رہنا چاہیے ، یہ سب کچھ تعلیمِ امت کے لیے ہے۔

آپ ﷺ نے متعدد روایات میں فرمایا:’’اس عظیم رات کو مشرک،قتلِ ناحق کرنے والا،ماں باپ کا نافرمان ،سود خور، عادی شرابی، عادی زناکا ر،قطع رحمی کرنے والا، چغل خوراور کینہ پرورکی بخشش نہیں ہوگی‘‘، یعنی ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے شریعت میں بیان کی ہوئی توبہ کی قبولیت کی شرائط پوری کیے بغیر ﷲتعالیٰ کی مغفرت اور معافی کے حق دار نہیں بن سکتے۔

الغرض پندرہویں شبِ شعبان کے فضائل حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت معاذبن جبل، حضرت ابوہریرہ،حضرت عوف بن مالک، حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص، حضرت ابو ثعلبہ اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں،یہ روایات اگر چہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، لیکن اِس پر علماء کا اجماع ہے کہ ’’فضائلِ اعمال‘‘ میں ضعیف روایات معتبر ہوتی ہیں.

مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:’’رہا شب برا ء ت کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے، جو بعض روایاتِ حدیث میں منقول ہے، مگر وہ اکثر ضعیف ہیں، اسی لیے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے۔ لیکن شب برا ء ت کی فضیلت کی روایات اگر چہ بااعتبارسند کے ضعیف ہیں ، لیکن تعدّدِ طُرق اور تعَدُّد ِ روایات سے اُن کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہت سے مشایخ نے اِن کو قبول کیا ہے، کیونکہ فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے،(معارف القرآن ، جلد: 7،ص:758)‘‘

جامع ترمذی میں ’’بَابُ مَاجَآءَفِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ‘‘کے تحت شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی گئی ہے۔ اس پر بحث کرتے ہوئے مشہور اہلِ حدیث عالم شیخ عبداللہ مبارک پوری لکھتے ہیں:’’جان لوکہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں ۔ یہ احادیث بحیثیتِ مجموعی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ (شریعت میں) اس کی اصل موجود ہے۔پھر انہوں نے اس رات کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ذکر کرکے ان پر کلام کیا ہے اور آخر میں لکھتے ہیں:’’اور ان روایات کا مجموعہ ان لوگوں پر حُجت ہے ، جو یہ گمان کرتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت کے بارے میں دین میں کوئی بات ثابت نہیں ہے ‘‘(تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی، جلد: 2، ص: 52-53)‘‘یہ ان کی بحث کا خلاصہ ہے۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

’’ہمارے والد صاحب فرماتے تھے کہ ان احادیثِ مبارَکہ کی روشنی میںزندگی میں کم از کم ایک بار شعبان کی پندرہویں شب کوضرورقبرستان جانا چاہیے‘‘۔تاہم احادیث میں ایسی کوئی تحدید نہیں ہے۔پس ثابت ہوا کہ یہ علمائے کرام کسی نہ کسی درجے میں اس رات کی فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن پھر عوام کے مساجد میں نفلی عبادات اور مجالس وعظ کے لیے جمع ہونے کے رجحان کو بدعت بھی قرار دیتے ہیں ، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ہم بھی اس رات میں قیام، عبادات ،تلاوت وذکرواذکار اور تسبیحات ودرود کوفرض یا واجب قرار نہیں دیتے،یہ باتیں سنت ومستحب ہیں ،ہم ان کے التزام کی تلقین یا تاکید نہیں کرتے ،صرف ترغیب دیتے ہیں اورنہ ہی ترک پر کسی کو ملامت کرتے ہیں ،یہ بھی اصولِ شرع کے خلاف ہے ،البتہ جواز واستحباب احادیث وروایات میں موجود ہے۔سوشریعت میں جس بات کا ثبوت جس درجے میں ہو،اُسے مان لینا چاہیے ،ہر بات کو مسلمانوں کے درمیان محلِ نزاع نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی ماننے والوں کو حد سے تجاوز کرنا چاہیے۔

ان احادیث کی روشنی میں ہمارے اس خطے میں شعبان کی پندرہویں شب کو اپنے مرحومین کی قبور پر جانے کی روایت ہے اور یہ اچھی بات ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

’’حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے(ابتدائے اسلام میں) تمہیں قبرستان جانے سے روکا تھا ،سو اب تم جایا کرو، کیونکہ اس سے دنیا کی ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے،(سنن ابن ماجہ:1571)‘‘

دنیا سے کسی قدر بے رغبتی اور آخرت کی یاد شریعت کا مطلوب ہے،پس جب قبرستان جائیں توآخرت کا تصور ذہنوں میں تازہ کریں کہ یہ اہلِ قبور بھی کبھی بڑی شان وشوکت والے تھے ، حسین وجمیل مکانات میں رہتے تھے،پر تعیّش زندگی گزارتے تھے، اب چھ فٹ کے گڑھے میں لیٹے ہوئے ہیں،دنیا کی ساری عشرتیں اور قرابت کے رشتے اسی دنیا میں رہ گئے،

میر تقی میر نے کہا تھا :

کل پاؤں ایک کاسۂ سرپر جو آگیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چُور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کُسُوکا سرِ پرغرور تھا.

بہت سے لوگ زائرین کی سہولت کے لیے قبرستان کی صفائی کرتے ہیں، یہ بھی اچھی روایت ہے، کیونکہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز (یعنی پتھر ، کنکر ، کانٹے ،موذی حشرات الارض وغیرہ)کے ہٹا دینے کو رسول اللہ ﷺ نے ایمان کاایک حصہ قرار دیا ہے اور اگر کوئی اسپرے بھی کرسکے تو اس کی وجہ سے حشرات الارض اور موذی جانوروں سے لوگ محفوظ رہیں گے، جدید دنیا ویسے بھی ماحولیاتی تطہیرکو بڑی اہمیت دے رہی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کو ایک بڑا مسئلہ قرار دے رہی ہے۔کچھ لوگ قبرستان میں چراغاں کرتے ہیں، زائرین کی سہولت کے لیے روشنی کا انتظام کرنا اچھی بات ہے ،لیکن اس کا شبِ براءت سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ہے کہ اسے محض اس رات کے لیے خاص سنت یاعبادت سمجھ کر کیا جائے ،یہ انتظام مستقل اور ضرورت کی حد تک ہونا چاہیے ، اس میں اِفراط درست نہیںہے۔ اہلِ قبورکو جو نور کام آتاہے، وہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کا نور ہے اوراہلِ قبور کو ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے اس خطے میں شب برا ت کے موقع پر آتشیں کھلونوں سے بچے کھیلتے ہیں، یہ ناجائز ہے اور کم ازکم مکروہِ تحریمی ہے ۔ ملکی قانون کی رو سے بھی آتشیں کھلونے بنانا، انہیں ذخیرہ کرنا اور بیچنا منع ہے اورمفادِ عامّہ کے قوانین کی پابندی شرعًا بھی مستحسن اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔نہایت افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ محض دولت کمانے کے لیے غیر شرعی اور غیر قانونی کام کرتے ہیں۔

ایصالِ ثواب کے لیے غریبوں کو کھانا کھلانااچھی بات ہے، لیکن شبِ براءت کے حوالے سے حلوہ پکانااور بانٹنا ہمارے خطے کا ایک رواج ہے جو شریعت میں منع تونہیں ہے ، لیکن یہ شرعًا لازم بھی نہیں ہے۔شب برات کے لیے کوئی خاص عبادت منقول نہیں ہے، نوافل ، تلاوتِ قرآنِ کریم ، اَذکاروتسبیحات ودرود میں سے جس کی بھی توفیق وسعادت نصیب ہو، قابلِ تحسین ہے۔ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ اِن مبارک راتوں میں اور جب بھی موقع ملے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق کی ارزانی ہو، توماضی کی قضا نمازیں پڑھنی چاہییں۔

حدیث مبارک میں ہے:’’ غزوۂ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں مشرکینِ مکہ(کے محاصرے ) کی وجہ سے جاتی رہیں ،یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ گزر گیا،پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ،اُنہوں نے اذان دی ،پھراقامت کہی تو رسول اللہ ﷺ نے پہلے ظہر کی نماز پڑھائی ، پھر اقامت کہی گئی اور عصرکی نماز پڑھائی پھر اقامت کہی گئی تو مغرب کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی گئی تو عشاء کی نماز پڑھائی،(سُنن ترمذی: 179)‘‘

علامہ نظام الدین لکھتے ہیں:’’سنن مؤکدہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے سے قضانمازوں کی ادائیگی میں مشغول رہنا اولیٰ اور اہم ہے،(عالمگیری، جلد:1،ص:125)‘‘

حضرت حسن بصری سے سورکعات پر مشتمل ’’صلوٰۃ الخیر‘‘ منقول ہے، بعض مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے اور ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں بھی اس کا حوالہ موجود ہے۔

امامِ اہلسنت اعلیٰ حضرت احمد رضا قادری لکھتے ہیں:

’’شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے، نادان سمجھتا ہی نہیں، نیک کام کررہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے، اِس کے قبول کی امید تو مفقود اور ُاس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض، خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے، وہ قابل ِقبول ہوں گے؟خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے،(فتاویٰ رضویہ، جلد:10 ص:178، مطبوعہ: رضا فائونڈیشن، لاہور)‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’اگر فرض چھوڑ کر سنت ونفل میں مشغول ہوگا، تو یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا‘‘۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:’’لازم اور ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں اس کا اہتمام عقل ودانش کی رو سے غیر مفید ہے، کیونکہ عاقل کے نزدیک نفع کے حصول سے ضرر کا دور کرنا اہم ہے، (فتوح الغیب مع شرح عبدالحق الدہلوی، ص:273)‘‘

میں نے عام روش سے ہٹ کر یہ گزارشات اس لیے کی ہیں کہ دین میں ترجیحات اور اَحکامِ شریعت کی درجہ بندی کو بعض اوقات ہم نظرانداز کردیتے ہیں اور ایک طرح سے یہ عملی تضاد کی صورت بن جاتی ہے۔ فرائضِ شرعی وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کو ہر مسلمان سے مطلوب ہیں، یہ شریعت کا لازمی مطالبہ ہے ۔ نفلی عبادات بلاشبہ شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور قرآن وحدیث میں ان کے بے شمار فضائل بھی آئے ہیں، لیکن نفلی عبادات میں یہ رغبت فرائض کے ترک کا سبب نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی انہیں فرائض کا متبادل سمجھنا چاہیے، البتہ انہیں فرائض کاتکملہ اور تتمّہ سمجھنا چاہیے ۔ہمارے ہاں بہت سے لوگ محافلِ نعت، میلاد النبی ﷺ اوراَعراس کی مجالسِ مبارکہ پر دل کھول کر رقم خرچ کریں گے، لیکن زکوٰۃ جو فریضۂ الٰہی ہے ،اُس سے غافل رہیں گے، اس لیے شریعت میں ’’ اَلاَہَمّ فَالْاَہَمّ ‘‘کی رعایت ضروری ہے

۔
بعض مساجد میں لوگ باجماعت صلوٰۃ التسبیح کے نوافل پڑھتے ہیں ، فقہائے کرام نے ان کے لیے تداعی کو مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو لوگ پڑھ رہے ہوں ، اُن کو منع نہ کیا جائے ۔امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:
’’تراویح کے سوا دیگر نوافل میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی، چار کی نسبت کتب فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں، یعنی مکروہِ تنزیہی، جس کا حاصل خلافِ اَولیٰ ہے ،نہ کہ گناہ وحرام (جیساکہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں دی ہے)۔ مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے، بہت اکابر دین سے نوافل کی جماعت کی تداعی ثابت ہے اور عوام فعلِ خیر سے منع نہ کیے جائیں ، علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے

درمختار میں ہے: ’’عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیا جائے، کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں اُن کی رغبت کم ہوتی ہے، بحوالہ البحر الرائق ،اسی میں ہے: ’’عوام کو ان (ذوالحجہ کے) دس دنوں میں بازار میں تکبیرات پڑھنے سے منع نہ کیا جائے، اسی پر ہمارا عمل ہے، (بحر اورمجتبیٰ وغیرہ)‘‘

حدیقہ ٔندیّہ میں ہے:

’’صلوٰۃالرغائب کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں، اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے ،مگر عوام میں یہ فتویٰ نہ دیا جائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھابھی ہے، عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے،(فتاویٰ رضویہ ،ج:7،ص:465-466)‘‘۔

Share:

Leave a reply