قرآن و حدیث کی روشنی میں خوددار اور حقدار مسکین کی تلاش
خوددار اور حقدار کی تلاش
1۔ قرآن پاک میں اللہ کریم کا ارشاد ہے: ان فقراء کے لئے جو اللہ کریم کی راہ (دین پھیلانے کی وجہ سے نوکری یا مزدوری یا کمائی نہیں کرپاتے) میں روکے گئے ہیں، زمین میں چل نہیں سکتے اور ناواقف لوگ انہیں دولت مند سمجھتے ہیں کیونکہ وہ بھیک نہیں مانگتے مگر تو انہیں ان کی شکل سے پہچان لے گا کیونکہ وہ گڑگڑا کر لوگوں سے نہیں مانگتے (دنیا دارانہ انداز میں بہانے نہیں لگاتے) اور جو تم خیرات کرو گے (ان کو) اللہ تعالے اسے خوب جانتا ہے ۔ (البقرہ 273)
2۔ حضورﷺ نے فرمایا:مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجور، ایک یا دو لقمے در بدر لیے پھریں، بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور اگر تم دلیل چاہو تو (قرآن سے) اس آیت کو پڑھ لو «لا يسألون الناس إلحافا» کہ ”وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔“(5299 – 4539)
3۔ اسلئے ہمارا حق بنتا ہے کہ ”خوددار“ لوگوں کی تلاش میں رہیں جو دین کا کام کرنے کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے، ایک دفعہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں، قطاروں میں لگ نہیں سکتے،سوال کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
4۔ ان کے متعلق زیادہ تر امیر عوام یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ اُس ”خوددار“ نے کب بتایا ہے کہ مجھے زکوۃ، صدقات و خیرات چاہئے ورنہ دے دیتے۔ مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ اگرکسی غریب نے کسی امیر کو اپنی مجبوری بتا دی تو اُس نے تب بھی نہیں دیا بلکہ ٹال دیا یا دے کر اُسے اپنی دنیا داری کے لئے استعمال کیااور اگر اُس مانگنے والے سے طبعیت نہیں ملتی تھی توخوشی محسوس کی کہ آج داڑھ کے نیچے آیا ہے۔اللہ کریم ایسے دینے والوں سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
5۔ اسلئے ہر پیر، عالم یا مولوی کو بھی چاہئے کہ اپنے عقیدت مندوں، شاگردوں اور مقتدیوں سے زیادہ سوال نہ کریں ورنہ وہ برا منا کر آپ کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں نماز ادا کرنا شروع ہو جائیں گے یا جھوٹ بولیں گے اسلئے ان کو دنیاداری کرنےاور جھوٹ بولنے سے بچائیں۔ یہ بات بھی ان پیر، مولوی اور عالم حضرات کے لئے ہے جو خوددار ہیں ورنہ عوام اور امام برابر بھی ہو سکتے ہیں۔
6۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے زیادہ تر صدقات و خیرات اُس عوام کو جاتی ہے جو مستحق نہیں ہوتے۔ یاد رکھئے گا کہ زکوۃ اور فطرانے حقدار کو لگتے ہیں اور اگر حقدار کو نہ دئے جائیں تو زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔اسلئے مستحق تلاش کرنا سب سے بڑا کام ہے۔
7۔ سب سے زیادہ تو زکوۃ و صدقات و خیرات کے حقدار نمازی لوگ ہیں کیونکہ دین اسلام مسلمانوں پر خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر زکوۃ و صدقات و خیرات مساجد میں تقسیم کی جائے تو عوام مساجد میں باقاعدگی سے نماز بھی ادا کرے گی اور ریاکاری سے خلوص تک کا سفر بھی طے بھی کرے گی۔
8۔ مزاروں پر ”نذر و نیاز“ کرنا علماء نے جائز فرمایا ہے کیونکہ مزاروں پر قرآن خوانی کر کے، غریبوں کو کھانا کھلا کر، اولیاء کرام کو ایصال ثواب کر کے اُن کے درجات کی بلندی کی دعا کرنا جائز ہے۔ البتہ کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ مزاروں پر بیٹھے بھنگی چرسی ہڈ حرام بھکاری عوام کو “دیگیں” کھلانے سے بہتر ہے کہ مساجد میں نماز پڑھتے یا جمعہ پڑھتے متقی نمازیوں کو کھلانا کھلایا جائے یا ان کی مدد کی جائے۔
اسلئے ہر وہ کام کریں جس سے عوام مساجد میں آئے اور ہر وہ کام نہ کریں جس سے عوام مساجد کی بجائے مزارات کا رُخ کر لے کیونکہ مزارات پر آجکل بے بنیاد رافضی مذہب والے پیر ہیں۔
9۔ ہم آج کل کہہ رہے ہیں کہ غریبوں کا خیال رکھیں، کیا غریب اپنا خیال رکھتے ہیں، ہر وہ مسلمان بدترین غریب ہے جو دنیا کا بھی غریب ہے اور دین کا بھی غریب ہے یعنی دین پر نہیں چلتا۔
10۔ ضعیف احادیث پر عمل کرنے والے بریلوی اور دیوبندی علماء عوام کو اس دور میں کیوں نہیں مشورہ دیتے کہ رات کو سورہ واقعہ پڑھ کر سوئیں کیونکہ سورہ واقعہ پڑھنے والے کو کبھی فاقہ نہیں ہوتا۔
11۔ ہر مذہب و مسلک و جماعت اپنے آپ کو حق پر سمجھتی ہے اسلئے اپنے حق میں دلائل اسطرح دیتی ہے کہ ہمیشہ اپنی اچھی مثالیں سُناتی ہے اور اپنی بری مثالوں کی تاویل کرے گی لیکن توبہ نہیں کرے گی۔ دوسروں کی غلطیاں نکال کر ذلیل کرتی ہے مگرکبھی بھی دوسری جماعتوں کی اچھائیاں نہیں بتائے گی۔
اہلسنت: ہر مسلمان یا جماعت جو حضورﷺاور صحابہ کرام کے طریقے پر چلتی ہے اُسے اہلسنت کہتے ہیں۔