میرا جسم میری مرضی
میرا جسم میری مرضی
حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تہمت والی جگہ سے بچو۔ میرا جسم میری مرضی کا مطلب اگر یہ ہے کہ شریعت کے مطابق مجھے حقوق دئے جائیں تو ٹھیک ہے اور اگر اس کے خلاف ہے تو اس عورت کو بٹھا کر پیار سے سمجھانا چاہئے۔ البتہ اس پر ہمیں یہ کمنٹ پڑھنے کو ملے ہیں جو عوام کا شدید رد عمل ہے:
1۔ یہ جملہ کسی مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔ اس نعرے کو لگانے والی کسی کافر کے ایجنڈے پر ہو گی۔
2۔ مرضی تو اُس کی ہوتی ہے جو اپنے جسم کو گھٹنے بڑھنے اور بیماری و صحت دینے پر قادر ہو۔ اگر وہ اپنے جسم کو بچپن، جوانی اور پھر بڑھاپے میں جانے سے نہیں روک سکتی تو پھر یہ جملہ مذاق ہے۔
3۔ یہ سخت جملہ بھی تھا کہ مرضی تو تب ہے کہ وہ اپنا جسم اپنے باپ کو پیش کرے اور وہ کہے مجھے قبول ہے، اپنے بھائی کو پیش کرے اور وہ کہے کے مجھے قبول ہے۔ اگر اُس کی مرضی اُس کے بھائی اور باپ نہیں مانتے تو پھر بھی یہ جُملہ میرا جسم میری مرضی قبول نہیں ہے۔
4۔ مرضی تو فاحشہ عورت کی بھی پیسے لینے کے بعد نہیں ہوتی بلکہ اُس کے بعد مرضی اُس کے مالک کی ہوتی ہے، اسلئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ میرا جسم میری مرضی۔
5۔ یہ جملہ کیوں ہماری نسل کو دیا جائے گا، اس کے بارے میں سوچنا ہے کیونکہ کوئی بھی جملہ جب ایجاد کیا جاتا ہے، اُس کے پیچھے کچھ مقاصد ہوتے ہیں، کسی کی نسل کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کا آلہ کار کوئی بھی بن سکتا ہے۔گلہ آلہ کار سے نہیں ہے بلکہ جُملہ ایجاد کرنے والے سے ہوتا ہے جیسے:
روشن خیالی کا نعرہ لگا کر ہر ایک کے خیال کو ناپاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ روشن خیال وہی ہے جو آخرت کی روشنی میں اپنے کام کرتا ہو۔