سوال: حقِ شفعہ کے بارے میں تفصیلی شرعی احکام کیا ہیں؟

Share:

جواب:شریعت اسلامیہ کا قانون ہے کہ جب کوئی شخص زمین، مکان، دکان یا کوئی بھی غیرمنقولہ جائیداد بیچنا چاہے تو پہلے اپنے پڑوسی کو آگاہ کرے۔ اگر وہ خریدنا چاہے تو مارکیٹ ریٹ پر اس کے ہاتھ فروخت کرے کیونکہ اخلاقاً اور قانوناً دوسروں کی نسبت وہ زیادہ حقدار ہے۔ اگر پڑوسی خریدنے کے لیے تیار نہ ہو تو جہاں چاہے بیچ سکتا ہے، شرعاً آزاد ہے۔

اگر زمین بیچنے والے نے ہمسائے کو بتائے بغیر اپنی زمین کسی تیسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دی ہے تو ہمسایہ اپنا حقِ شفعہ استعمال کر کے بذریعہ پنچائت یا عدالت قانوناً یہ سودا منسوخ کروا کر خود اسی قیمت پر خرید سکتا ہے جو مارکیٹ ریٹ سے بنتی ہے تاکہ کسی فریق پر زیادتی بھی نہ ہو اور حقدار کو اس کا حق بھی مل جائے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
قضی النبی صلی الله عليه وآله وسلم بالشفعة فی کل ما لم يقسم. فاذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة.

(صحيح بخاری، 2: 770،رقم: 2138)

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر غیر منقولہ غیر منقسم جائیداد میں حقِ شفعہ دیا۔ جب حد بندی ہو جائے اور راستے بدل جائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں‘‘۔

اسی روایت کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے:
قضی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم بالشفعة فی کل شرکة لم تقسم ربعة أو حائط، لا يحل له ان يبيع حتی يؤذن شريکه، فان شآء أخذ و ان شاء ترک، فاذا باع و لم يؤذنه فهو أحق به.

(الصحيح لمسلم، 3: 1229، رقم:1608)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر شریک چیز میں حقِ شفعہ مقرر فرمایا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو، گھر ہو یا باغ۔ کسی کو جائز نہیں کہ اپنے پڑوسی کو (جس کی حد اس جائیداد سے ملتی ہے) بتائے بغیر بیچ دے۔ پڑوسی چاہے تو لے، چاہے تو چھوڑ دے۔ جب مالک نے پڑوسی کو بتائے بغیر وہ (جائیداد) بیچ دی تو پڑوسی بہ نسبت کسی تیسرے شخص کے زیادہ حقدار ہے‘‘۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
الجار أحق بسقبه.

’’پڑوسی اپنی قربت کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے‘‘۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الجار أحق بشفعته، ينتظر به وان کان غائبا.

(احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجه، دارمی)

’’پڑوسی شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، اگر موجود نہیں تو اس کا انتظار کیا جائے گا‘‘۔

(یہ تمام روایات مشکوۃ شریف میں باب الشفعہ صفحہ 257-256 پر موجود ہیں۔)

جس شخص کو شفعہ کا حق حاصل ہے، اس کے لئے لازم ہے کہ جب اسے مکان یا جائیداد کے فروخت کیے جانے کی خبر پہنچے تو فوراً بغیر کسی تاخیر کے یہ اعلان کرے کہ: ’فلاں مکان فروخت ہوا ہے اور مجھے اس پر حقِ شفعہ حاصل ہے، میں اس حق کو استعمال کروں گا‘ اور اپنے اس اعلان کے گواہ بھی بنائے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:
اذا علم الشفيع بالبيع، ينبغی أن يطلب الشفعة علی الفور ساعتئذ.

(فتاوی عالمگيری، 5: 172)

’’جب شفعہ کرنے والے کو سودے کا پتہ چلے اسے فوراً اسی وقت شفعہ کا مطالبہ کر دینا چاہئے‘‘۔

اگر کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے وہ شفعہ کا اعلان یا مطالبہ نہیں کرسکا تو اس کا حقِ شفعہ ساقط نہیں ہوتا۔

ولو ترک الخصومة ان کا بعذر نحو مرض أو حبس أو غيره، و لم يمکنه التوکيل، لم تبطل شفعته.

(فتاویٰ عالمگيری، 5: 173)

’’اگر شفعہ کرنے والے نے کسی بیماری یا قید یا کسی اور عذر کی بنا پر معاملہ نہیں اٹھایا اور نہ کسی کو وکیل بنانا ممکن تھا تو اس کا حقِ شفعہ باطل نہیں ہوگا‘‘۔

صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں:

لا تسقط الشفعة بتأخير هذا الطلب.

’’طلب شفعہ میں تاخیر ہو جائے تو حق شفعہ باطل نہیں ہو جاتا‘‘۔

(هداية،4: 394)

یہی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام ابو یوسف کا مذہب ہے۔

اگر قیمت کے تعین میں صاحبِ شفع اور دوسرے خریدار کے مابین اختلاف ہو جائے تو دوسرے خریدار کی بات مانی جائے گی۔
ان اختلف الشفيع و المشتري في الثمن فالقول قول المشتري، لأن الشفيع يدعي استحقاق الدار عليه عند نقد الأقل وھو ينکر، و القول قول المنکر مع يمينه و لا يتحالفان.

’’اگر شفعہ کرنے والا اور دوسرا خریدار قیمت میں اختلاف کریں تو بات خریدنے والے کی مانی جائے گی کیونکہ شفعہ کرنے والا مکان کا حقدار ہونے کا دعویدار ہے کم قیمت پر۔ اور خریدنے والا انکار کرتا ہے اور بات انکار کرنے والے کی مانی جاتی ہے قسم کے ساتھ۔ دونوں کو قسم نہیں دی جائے گی‘‘۔ (ھدایہ، 4: 397)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

اذا اختلف الشفيع و المشتري في الثمن، فالقول قول المشتري، و لا يتحالفان و لوأقا ما البينة فا لبينة بينة الشفيع عند أبي حنيفة و محمد.

(فتاویٰ عالمگيری، 5: 185)

’’اگر حقِ شفعہ رکھنے والا اور بیچنے والا قیمت میں اختلاف کریں تو بات دوسرے خریدار کی مانی جائے گی۔ دونوں کو قسم نہیں دی جا سکتی۔ اگر دونوں نے گواہی پیش کر دی تو شفعہ کرنے والے کی گواہی مانی جائے گی۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام محمد رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے‘‘۔

اگر خرید و فروخت میں زمین کے بدلے زمین لی گئی ہے تو حق شفعہ والا ان دونوں میں سے کسی ایک زمین کی قیمت ادا کر کے زمین لے سکتا ہے۔
وان باع عقارا بعقار، أخذ الشفيع کل واحد منهما بقيمة الآخر لأنه بدله و هو من ذوات القيم فيأخذه بقيمته. (هدايه،4: 399)

’’اگر کسی نے غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین، زمین کے بدلے بیچی تو حق شفعہ والا ان دونوں میں سے ہر ایک دوسری کی قیمت سے لے سکتا ہے کیونکہ ہر زمین دوسرے کا بدل ہے اور قیمتی چیز ہے۔ پس ایک کو دوسری کی قیمت پر لے سکتا ہے‘‘۔

Share:

Leave a reply