بہت بڑا جنازہ (فیشن)
بہت بڑا جنازہ (فیشن)
1۔ بہت سے جنازوں پر جانے کا اتفاق ہوا۔ کچھ جنازوں پر بہت کم بندے دیکھے اور کچھ جنازوں پر بہت زیادہ بندے دیکھے۔ جس جنازے میں بہت کم بندے دیکھے تو سمجھ آئی کہ اس بندے کی سوشل لائف اسقدر نہیں تھی، بہت کم لوگوں سے ملتا تھا، خاندان بڑا نہیں تھا، اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ اسطرح جن جنازوں میں بہت زیادہ بندے دیکھے، وہ لوگ تھے جن کا خاندان بڑا تھا۔ بہت سوشل لائف تھی یا تعلقات نبھائے گئے تھے۔
2۔ معاشرتی حوالے سے یہ بھی دیکھا کہ مرنے والے کے قریبی رشتے داروں نے جنازے کے بعد غور سے دیکھا کہ کون کون آیا ہے اوربعد میں جنازے میں شریک نہ ہونے والوں سے شکوے کئے گئے یا مرن جون بند کر دیا۔ تین دن سے زیادہ بول چال بندکرنا ”گناہ“مگر اس گناہ کا کس کو ڈر ہو۔
3۔ جنازے پر مولوی صاحب کہتے ہیں، تین، پانچ یا سات صفیں ہونی چاہئیں اور جس جنازے پر 40یا 100مسلمان جنازہ پڑھ لیں تو اُن کی بخشش ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر بخشش ہو جاتی ہے تو پھر جنازے کے بعد دُعا پر کیوں لڑتے ہیں، سمجھ نہیں آئی۔
4۔ بندے وضو کر رہے ہوں تو کہا جاتا ہے مولوی صاحب کچھ تقریر کر دیں حالانکہ اُس وقت تقریر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات اتنی گرمی ہوتی ہے کہ مولوی صاحب کی تقریر پرطنزیہ آواز آتی ہے، مولوی صاحب گرمی زیادہ ہے تقریر بند کروورنہ کہیں ہمارا بھی جنازہ نہ پڑھانا پڑھ جائے۔
5۔ مولوی صاحب کہتے ہیں چار تکبیر نماز جنازہ، پہلی تکبیر کے بعد ثناء، دوسری تکبیر کے بعد درود، تیسری دعا کے بعد جنازے والی”دُعا“ پڑھنی ہے، جس کو یاد نہ ہو، شرم کرے اور دُعا یادکرے۔ پوسٹ پڑھنے والے جواب دیں کہ کیا ایسا ہوا ہے، کسی نے نماز جنازہ ادا کیا ہو، دُعا نہیں آتی تھی، شرمندگی ہوئی، گھر آیا ہو اور مولوی صاحب کی بات پر دُعا یاد کر لی ہو؟
6۔ بہت بڑا جنازہ بھی ایک فیشن ہے جو عوام دیکھنا چاہتی ہے حالانکہ اگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ جنازہ وہی پڑھے گا جس کو جنازے کی دُعا آتی ہے تو شاید بہت کم لوگ جنازے میں شریک ہوں۔
7۔ ہمارے ایک دوست حاجی صاحب تھے،اُن کا ایک پان والا بھی دوست تھا، حاجی صاحب جب بھی پان والے کے پاس جاتے تو اُن کے ساتھ کوئی نہ کوئی مولوی ”دوست“ ہوتا، پان والے نے ہنس کر پوچھا، خیر ہے حاجی صاحب، کوئی نہ کوئی مولوی نال لایا ہوندا جے(جب بھی آتے ہو کوئی نہ کوئی مولوی ساتھ ہوتا ہے)۔
حاجی صاحب نے درد سے کہا کہ مجھے علم ہو گیا ہے کہ میں نے مر جانا ہے، اسلئے ان لوگوں سے دوستی لگا لی ہے جن کو جنازہ پڑھنا اور پڑھانا آتا ہے۔ خلوص سے میرے لئے دُعاکر کے میری بخشش تو کروا دیں گے ورنہ تم بھی میرے دوست ہو، میری موت پر تم آؤ، معذرت، آپ کو تو جنازے کی دُعا بھی نہیں آتی۔ کیسے دوست ہو؟
اُس پان والے کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوئے، کہنے لگا حاجی صاحب، بس کافی ہے، تمہاری بات نے میرے اندر بھونچال پیدا کر دیا ہے۔
8۔ یہ دُنیاوی باتیں ہیں مگر مزہ اُس وقت آئے گا، جب بندہ مر جائے، ان باتوں سے رشتہ ٹوٹ جائے، مرے ہوئے ساری حقیقت سامنے آئے اور زندگی میں اپنے دین پر چلنے کے”فیصلے“پر مسکرائے۔ یا اللہ ہم سب کو موت کی تیاری کرنے والا بنا دے اور دنیاداری سے جان چُھڑا دے۔