وبائی امراض اور نبوی تعلیمات

2134
0
Share:

زاویہ نظر
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن
وبائی امراض اور نبوی تعلیمات

ان دنوں دنیا کئی مُہلک جرثوموں کی زَد میں ہے،ان میں سے اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ڈینگی ، کانگو،نگلیریاکے بعد ایک اور خطرناک وائرس ’’کرونا‘‘ نے دنیا کو دہشت زدہ کر دیا ہے ۔ماضی میں ایسی مُہلک وبائوں کا شکار اکثر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ہوتے تھے، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اس بار اولین مرحلے پرترقی یافتہ ممالک اس کا شکار ہوگئے ہیںاوران میں سے چین سب سے زیادہ متاثر ہے۔ جاپان،تھائی لینڈ ،سنگاپور،تائیوان ،کینیڈا ،جرمنی اور کسی حد تک امریکہ بھی اس کی زد میں ہے،یعنی وہاں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔کروناوائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں، جب اس کا خوردبین سے جائزہ لیا گیا تویہ نصف دائرے کی شکل میں نظر آیا اور کنارے پر ایسا ابھار نظرآیا جوتاج کی شکل کے مشابہ ہے،رومن زبان میںتاج کو کرائون کہتے ہیں ، اسی بنا پراس کا نام کرونا رکھ دیا گیاہے ، اب تک زیادہ تر جاندار مثلاً :خنزیر اور مرغیاں اس سے متاثر ہوتے رہے ہیں ،لیکن اب یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے پہلی بارسنا اور اب تک اس کی 13اقسام سامنے آچکی ہیں،ان میں سے سات اقسام انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔
ان میں سے ’’ Novel Coronavirus 2019 ‘‘اور’’(SARS)’’Severe acute respiratory
syndrome‘‘ چین میں دریافت ہوئے ہیں اور ’’(MERS) Middle East Respiratory Syndrome‘‘ شرقِ اوسط میں دریافت ہوا ہے۔کرونا وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے داخلی نظام کو متاثر کرتا ہے اورانسان جان لیوا نمونیا یا فلو میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ 2003ء میں سارس وائرس سے چین میں 774افراد ہلاک اور 8000متاثر ہوئے تھے، مرس اس سے بھی زیادہ ہولناک تھا۔اس وائرس سے متاثر مریضوں میں یہ علامات ظاہر ہوتی ہیں: بخار، کھانسی، گلے کی خراش اور شدید حملے کی صورت میںسانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔چین کے ’’مرکز برائے انسدادِ امراض واحتیاطی تدابیر‘‘ کے ڈائریکٹر گاو فو نے کہا ہے :’’یہ وائرس ووہان کے ایک سمندری خوراک کی مارکیٹ میں جنگلی جانوروں سے پھیلا،اس مارکیٹ میں مختلف قسم کے جنگلی جانور مثلاً: لومڑی، مگرمچھ،
بھیڑیے اور سانپ وغیرہ فروخت کیے جاتے تھے‘‘۔
صحت کے عالمی ادارے کے مطابق وائرس کا شکار ہونے سے دو ہفتے کے اندر اس کی علامات سامنے آتی ہیں،چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ)معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین دریافت نہیں ہوسکی ، دسمبر 2019ء میں نیا وائرس سامنے آیا ہے اور ماہرین اس کی ظاہری علامات کے مطابق ہی اس کا علاج کررہے ہیں۔یہ ایک متعدی مرض ہے اوراس کا وائرس حیوان سے انسان میں منتقل ہونے، انسان کو بیمار کرنے اوردوسرے انسانوںمیں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی اس کے متعدی (Infectious)ہونے کی علامت ہے ۔
حدیثِ پاک میں ہے:’’نبی کریمﷺنے فرمایا:کوئی مرض( اپنی ذات سے) مُتعدی نہیں ہوتا،(بخاری: 5773)‘‘۔ مریض سے تندرست آدمی میں مرض کے منتقل ہونے کو’’عُدْوٰی‘‘ کہتے ہیں،بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ کوئی بھی مرض متعدی نہیں ہے اور و ہ مہلک امراض سے بچائو کے لیے حفاظتی تدابیرکو توکل کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ فہم درست نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مہلک امراض سے بچاؤکے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی ہے(۱) : حضرت اُسامہ بن زید روایت کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طاعون ایک صورتِ عذاب ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی اُمّتوں یا بنی اسرائیل پر مُسلط فرمایا، سوجب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے ،تووہاںکے لوگ اُس بستی سے باہر نہ جائیںاور جو اُس بستی سے باہرہیں ،وہ اُس میں داخل نہ ہوں، (مسلم:2218)‘‘۔(۲):حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے سفر پر جارہے تھے، سَرغ نامی بستی سے اُن کاگزر ہوا ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور اُن کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وباپھیل گئی ہے ۔حضرت عمر فاروق نے مہاجرین وانصار صحابۂ کرام اورغزوۂ فتحِ مکہ میں شریک اکابرِ قریش سے مشورہ کیا ،پھر اجتماعی مشاورت سے اُنہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا :امیر المومنین! اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو ،انہوں نے جواب دیا : ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی آغوش میں پناہ لے رہاہوں ۔پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف آئے اور اُنہوں نے کہا: اِس حوالے سے میرے پاس رسول اللہ ﷺ کی ہدایت موجود ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جب تم کسی بستی میں اِس وباکے بارے میں سنو ، تووہاں نہ جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہاں موجود ہو اوریہ وبا پھیل جائے تو وہاںسے بھاگ کر نہ جاؤ‘‘ ،یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب نے اللہ کا شکر اداکیا اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا،( مسلم، مُلخصاً:2219)‘‘۔
ان احادیث سے معلوم ہواکہ مسلمانوں کومتعدی وباسے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہییں اور حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکُّل اورتقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے ،بلکہ توکُّل کی حقیقت یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیاجائے ،لیکن اَسباب کو مُؤثِّر بِالذّات ماننے کے بجائے خداوندِمُسبّب الاسباب پر ایمان رکھاجائے، کیونکہ اسباب میں تاثیر اُسی نے پیداکی ہے اور اُسی کے حکم سے یہ موثر ہوتی ہے،تقدیرپر ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے ،آپ ﷺکا فرمان ہے: ’’ بیمار کو تندرست سے الگ رکھاجائے، ( مسلم: 2221)‘‘ ، اس میںIsolation Unitکی ہدایت موجود ہے۔خلاصۂ کلام یہ کہ وبائی امراض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ، ایک اورموقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جذام کے مریض سے بچوجیسے تم شیر سے بچتے ہو ، (بخاری:5707)‘‘۔ دوسری حدیث میںہے : ’’رسول اللہ ﷺ نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھاکر ایک برتن میں کھانا کھلایا ، (ابن ماجہ: 3542)‘‘۔ آپ ﷺ کے اِس شِعار کا مقصد یہ ہے کہ کسی وبائی مرض میں مبتلا مریض سے احتیاط تو کی جائے ،لیکن اُس سے نفرت نہ کی جائے تاکہ اُسے حوصلہ ملے اور اُس کے دل میں احساسِ محرومی پیدانہ ہو ۔چنانچہ آج بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ڈاکٹر اورطبی عملہ ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔
حدیث میں یہ فرمان کہ ’’کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا‘‘ ،اِس کی شرح میں علامہ نووی لکھتے ہیں : ’’ بظاہر اِن حدیثوں میں تعارض ہے کہ ایک جگہ مریض سے بچنے کا حکم ہے اوردوسرا جذام کے مریض کے ساتھ کھانا کھانے کے حوالے سے آپ کا فعلِ مبارک ہے، اس سے کوئی مرض کے متعدی نہ ہونے کا نتیجہ نکال سکتا ہے، اِن حدیثوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ امراض میں متعدی ہونے کی تاثیر اللہ ہی کی پیداکی ہوئی ہے،لیکن وہ اللہ کی مشیت سے مؤثر ہوتی ہے ،کسی چیز میں کوئی تاثیر ذاتی نہیں ہوتی ، اگرایسا ہوتا تودوااستعمال کرنے والا اور طبیب سے رجوع کرنے والا ہرمریض شفایاب ہوجاتا ،لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا،پس جس کے لیے اللہ کا حکم ہوتاہے ،اُس کے حق میں ڈاکٹر کی تشخیص درست اور دوا وسیلۂ شفابن جاتی ہے ۔
چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے مرض کے بذاتہٖ مُتعدی ہونے کی نفی فرمائی تو ایک اَعرابی نے سوال کیا : یارسول اللہ ! اُونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اُچھل کود کررہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زَدہ اُونٹ ریوڑ میں گھس جاتاہے اور اُس کے نتیجے میںسارے اُونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اُونٹ کو خارش کہاں سے لگی،( مسلم:2220)‘‘۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض کے مُتعدی ہونے کی نفی نہیں فرمائی ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف مُتوجہ فرمایا اور بتایا کہ عالَم اسباب مُسبِّبُ الاسباب کے حکم کے تابع ہے ،لہٰذا تدبیر کے طور پراسباب کو اختیار کیاجائے ،لیکن سب چیزوں کو قادرِ مُطلق کے حکم کے تابع سمجھاجائے ۔محض سبب اور مُسبّب اور علت اور معلول کے تانے بانے کوہی مؤثرِ حقیقی ماننا الحاد ہے اور ایسے ہی لوگوں کومُلحدکہاجاتاہے ، الغرض یہ جانور توہر دور میں رہے ہیںاور رہیں گے، لیکن ایک خاص موقع پر ایسے وائرس کا پیدا ہونا اور انسانوں میں منتقل ہونا ہر سلیم الفطرت انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر کی کارفرمائی کو تسلیم کرے۔
پس صحت کے ماہرین کی ہدایات اور ان کی بتائی ہوئی حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا لازم ہے ،چونکہ اس مرض کا تعلق سانس سے ہے ، اس لیے ایسی امراض کے بچائو کے لیے منہ اور ناک پر ماسک پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ کسی مریض سے سامنا ہو تووائرس کی زَد سے بچ سکیں۔لازم نہیں ہے کہ ہر شخص مرض کے وبائی اثرات کا شکار ہوجائے ،جیسے بعض متعدی امراض ایک گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہو جاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں،کیونکہ ہر ایک کی مدافعتی قوت جدا جدا ہوتی ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں ،جن کا خلاصہ یہ ہے:بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھوئیں،نزلہ اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک کوڈھانپیں، جانوروں سے دور رہیں، کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں،کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیں، کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔جو شخص پانچ مرتبہ دن میں نماز کا اہتمام کرتا ہے اور کھانے سے پہلے اور بعد میںہاتھ دھونے کی سنت پر عمل کرتا ہے ،اس کے لیے ان تدابیر پر عمل کرنا آسان ہے ، احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ روحانی تدابیر پر بھی عمل کریں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھے اوریہ دعا پڑھے:’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً ‘‘،ترجمہ:’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایاجس میں تجھے مبتلاکیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پرفضیلت دی‘‘، تو وہ زندگی بھر اس وباسے محفوظ رہے گا ،(ترمذی:3431)‘‘۔آپ ﷺ نے مسلمانوں کواللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے:’’اے للہ!میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلبگارہوں، اے اللہ!میں تجھ سے عفو و درگزر ، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت کی التجاکرتا ہوں، اے اللہ!ہماری ستر پوشی فرما،ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما اور ہمیں خوف و خطرات سے محفوظ اورمامون فرما، اے اللہ!تو ہمارے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے حفاظت فرما اور میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتاہوں کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جائوں، (ابودائود:5074)‘‘۔ایک اورموقع پررسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ البَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّئِ الْاَسْقَامِ ‘‘،ترجمہ:اے اللہ!میں برص، جنون،کوڑھ اور تمام مُہلک بیماریوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں،(ابودائود:1554)‘‘۔(روزنامہ دنیا، یکم فروری2020ء)

Share:

Leave a reply