حساس (Sensitive)

1226
0
Share:

حساس (Sensitive)

1۔ اس دور کا ہر بچہ ہی حساس (sensitive) ہے،جو دیکھتا ہے، سُنتاہے اور جو اُس کے ساتھ سلوک یا رویہ رکھا جاتا ہے، اُس کو محسوس کرتا ہے۔ اسلئے اچھا سلوک کرنے والا بُرا ہو تو وہ بُرا بننا پسند کرتا ہے لیکن اچھا بننا پسند نہیں کرتا۔اس کو بے حسی کہہ سکتے ہیں اور اس بے حسی کا علاج یہی ہے کہ اللہ کریم کو خوش کرنے کیلئے اپنے اپنے گھر یا مُلک کیلئے اپنی اپنی کہانی اور داستان خود بنائی جائے۔

2۔ مجھے بچپن میں یہ احساس ہو ا کہ میرے والد صاحب ہم بہن بھائیوں سے زیادہ اپنے بہن بھائیوں کے بچوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور وجہ ہمارے والد صاحب کی نمازی روزہ دار ہونے کے باوجودہماری والدہ کے ساتھ فضول جاہلانہ لڑائی تھی۔ میں نے اپنے پھوپھو کے بیٹے کا مذاق میں ہاتھ مروڑ دیا تو میرے پھوپھا جان نے میرے منہ پر ایک زور دار تھپڑ لگا دیا۔ میں نے امی کو آ کر بتایا تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں بڑے ہیں، تپھڑ مار دیا تو کیا ہوا۔ میرے والد صاحب گھر آئے، اُن کو پھوپھو نے بتایا کہ اس نے میرے بچے کا ہاتھ مروڑا ہے تو میرے ابو نے بھی مجھے تپھڑ مار کر مجھے اور میری والدہ کو کہا کہ جاؤ اُس بچے سے معافی مانگ کر آؤ۔ میں اور میری والدہ دونوں نے اُس بچے سے معافی مانگی۔

3۔ میرے دل میں اپنے والد صاحب کے متعلق نفرت پیدا ہوئی اور اسلئے بھی کہ اگر غلطی میری ہی تھی تو میری ماں کو معافی مانگنے کے لئے کیوں کہا لیکن مجھے حضورﷺ کے ارشادات نے دلاسا دیا کہ باپ جنت کا دروازہ ہے، اسلئے تم نے ہی اس کی بات ماننی ہے۔

4۔ میری والدہ بیمار ہو گئی لیکن میرے والد صاحب نے ان کی دوائی کے لئے پیسے نہیں دئے، میں چھوٹا تھا لیکن ملازمت کرتا تھا مگر پیسے میرے پاس بھی نہیں تھے۔ ابو نے قطعاً نہ پوچھا تو والدہ کو خالہ کی طرف لے گئے، انہوں نے فوراً ہسپتال داخل کروایا مگر میری ماں فوت ہو گئی۔ نفرت کا ایک اور الاؤ پیدا ہوا لیکن دین نے مدد کی کہ باپ اور ماں برابر ہیں، بیوی کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنے پر اللہ کریم کے حضور میرے والد صاحب ہوں گے،میں نہیں، البتہ مجھے یہ خوشی تھی کہ میری ماں مجھ سے راضی گئی۔

5۔ والدہ کی وفات کے بعدیہ دُعا کی کہ یا اللہ میرے والد صاحب کو ہم پر مہربان فرما دے۔ دل میں خیال پیدا ہوا کہ میرے باپ میں محبت ضرور ہے، خواہ یہ محبت ہمارے لئے نہ سہی مگر اپنے بہن بھائیوں کے بچوں کے ساتھ تو ہے، اسلئے مجھے اس محبت کو اپنی طرف لانا ہے۔ میں نے اپنے باپ کی ہر بات ماننی شروع کر دی، وہ مذاق بنا کر رکھ دیتے اور میں اُسے اپنی عبادت سمجھ لیتا، انہوں نے کہا تمہاری شادی فلاں سے کرنا چاہتا ہوں جو عمر میں تجھ سے بڑی ہے، میں نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں نبی کریمﷺ نے بھی تو اپنی سے بڑی عمر کی عورت سے نکاح کیا تھا۔آپ جیسے حکم دیں ویسا ہی ہوگا۔

6۔ مسائل بہت آئے، قربانیاں بھی دیں، نتیجہ یہ نکلا کہ والد صاحب کی وفات کے آخری دو سال ایسے گذرے کہ میرے والد صاحب میری تعریف کرتے، میرا ساتھ دیتے، سارے رشتے دار کہتے کہ اس بچے نے بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن میرے دل میں صرف یہی تھا کہ میں اپنے والد صاحب کی نفرت کو محبت میں تبدیل کر کے رہوں گا۔یہ میرا جذبہ تھا کہ میرے والد صاحب جنت میں جائیں۔ اپنے والد صاحب کا جنازہ خود پڑھایا۔یہ خوشی آج بھی ہے کہ میرے ماں باپ مجھ سے راضی گئے۔

7۔ آج کا بچہ بہت حساس ہے لیکن اُس کے اندر دینی جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُسے احساس ہو، جینا یارو سہل نہ جانو بہت بڑی فنکاری ہے، زندگی آزمائش ہے اور کیا کیا آزمائشیں مرنے تک آئیں گی کچھ معلوم نہیں ہے۔

8۔ ہمیں حضورﷺ کو پڑھنا تھا لیکن آپس میں لڑنا نہیں تھا۔ اسی طرح دیوبندی بریلوی علماء عوام کو بتائیں کہ مُلک حجاز کے چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے کوئی بھی بدعت و شرک نہیں سکھایا تھا۔ البتہ سعودی عرب کے وہابی علماء (امام کعبہ) نے چار مصلے اُٹھانے کے لئے کوئی علمی مذاکرات نہیں کئے بلکہ طاقت کا استعمال کیا۔ دیوبندی اور بریلوی کا مسئلہ صرف چار کفریہ عبارتیں ہیں جن پر مُلک حجاز کے چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام نے کفر کا فتوی دیا اور فتاوی واپس نہیں لئے تھے۔ مذہبی انتشار کو دور کرنے اورپاکستان میں اتحاد اُمت کے لئے علماء کرام کوقربانی دینا پڑے گی اور عوام کو علماء سے سیکھنا ہو گا ورنہ کل قیامت والے دن جواب دینا ہے.

Share:

Leave a reply