تقدیر اور قادرِ مُطلق

1502
0
Share:

تقدیر اور قادرِ مُطلق (اللہ کریم)

1۔ تقدیرکے متعلق پہلی بات یہ ہے کہ تقدیر نہیں بدلتی اور دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر بدل جاتی ہے۔ اللہ کریم کے ازلی ابدی علم میں تبدیلی نہیں ہوتی البتہ لوحِ محفوظ میں لکھا تبدیل ہو سکتا ہے۔

2۔ تقدیر پر ایمان لانا بھی اللہ کریم کی طرف سے امتحان ہے کیونکہ کسی بھی نیک عمل سے درجہ مل جائے یا صبر کرنا پڑ جائے، کسی بھی بُرے عمل سے پکڑ ہو جائے یامزید توبہ کیلئے وقت دے دیا جائے۔

3۔ علم الہی یعنی یہ جاننے کی کوشش نہ کر کہ اللہ کریم نے تقدیر میں اچھا یا بُراکیا لکھا ہے بلکہ حُکم الہی یعنی اللہ تعالی کے احکامات (نما ز، روزہ، ز کٰو ۃ، حج اور نیک اعمال)پر زور لگانا ”تقدیر“ ہے۔

4۔ تقدیر پر ایک بحث یہ بھی ہے کہ بندہ مجبور بھی ہے اوراختیار بھی رکھتا ہے لیکن کتنا مجبور اور کتنا مختار اس کا علم نہیں۔اسلئے بندہ کوئی بھی کام کرتا ہے، محنت، منصوبہ، ٹارگٹ اور سرمایہ لگاکر سمجھتا ہے کہ حل نکل آئے گا لیکن منصوبہ اس کے خلاف ہو جاتا ہے تو خود اپنی اور دنیا کی باتوں کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ نتیجہ اللہ کریم پر چھوڑنے والا کبھی دُکھی نہیں رہتا اور نتیجہ اپنے حق میں دیکھنے والا کبھی سُکھی نہیں رہتا۔ مجبور اور بااختیار کے لفظوں پر بحث کوئی نہیں۔

5۔ اچھی یا بُری تقدیر پرایمان لانا ضروری ہے۔البتہ زندگی کا ہر اچھا کام اللہ کریم کی طرف منسوب کرو اور ہر بُرا کام ہونے پر اپنی طرف منسوب کرو، ان شاء اللہ، کل قیامت والے دن اللہ کریم معاف کر دے گا۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ ایک بندے کے محشر کے روز نناوے (99) رجسٹر گناہوں کے کھولے جائیں گئے اور پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے یہ”گناہ“ نہیں کئے اور وہ بندہ ہر ”گناہ“ کے بیان ہونے پر اقرار کرتا جائے گا کہ یا اللہ یہ ”گناہ“ مجھ سے ہی ہواہے، اس ادب کی وجہ سے ہر بُرے عمل پر بھی جنت میں درجے دئے جائیں گے۔

6۔ دنیا میں کسی سے حسد جائز نہیں ہے، البتہ دو بندوں پر رشک جائز ہے۔ ایک وہ جس کے پاس علم ہے اور وہ علم عوام میں بانٹ رہا ہے، دوسرا وہ جس کے پاس پیسہ ہے اور وہ پیسہ دین پر لگا رہا ہے۔ اسلئے اگر ہم دونوں میں سے کوئی بھی نہیں تو پھر بھی اپنی غریبی کے مطابق نیک اعمال کریں گے۔

یقین: تقدیر پر ایمان لانے کے بعد کبھی تقدیر کا رونا رویا ہی نہیں۔ تقدیر کو درمیان سے نکال دیا تو سامنے قادر مطلق (اللہ کریم) کو پایا۔ اسلئے چوبیس گھنٹے بندہ اور میرا اللہ آمنے سامنے ہیں۔ تقدیر لکھنے والے سے محبت ہو جائے تو تقدیر کا رونا کیوں رویا جائے۔ تقدیر کیا ہے، میرے اللہ کا میرے بارے میں اندازہ تو میرے رب کا میرے بارے میں اندازہ کب غلط ہو سکتا ہے بلکہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ یا رب مجھے شاکر اور متوکل بنا کر صبر عطا فرما دے تاکہ مقام رضا پر کھڑا نظر آؤں۔ امین.

Share:

Leave a reply