مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم
نام و کنیت
خلیفہ چہارم، خلیفہ برحق وزوج بتول حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا نام مبارک علی، کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔
ولادت
آپ کرم اللہ وجہہ الکریم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابوطالب کے فرزند ہیں۔ عام الفیل کے تیس برس بعد جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تیس برس تھی جمعہ کے دن آپ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا ہے۔
قبول اسلام
آپ نجیب الطرفین ہاشمی تھے آپ نے اپنے بچپن میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرتربیت ہروقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امداد و نصرت میں لگے رہتے تھے۔
حلیہ مبارک
آپ کا قد درمیانہ، رنگ گندم گوں، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ پُررونق و خوبصورت، سینہ چوڑا اور اس پر بال تھے۔ تمام بدن گھٹا ہوا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا علمی مقام: حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بچپن ہی سے درسگاہ نبوت میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہا۔ مسند امام احمد میں خود مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے:
‘‘میں روزانہ صبح معمولاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا’’
(النسائی، السنن، 3: 12، رقم: 1212)
آپ تمام صحابہ کرام میں غیر معمولی تجربہ اور فضل و کمال کے مالک تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے خصوصی شان بیان فرمائی کہ
انا مدینة العلم وعلی بابها.
(حاکم المستدرک، 3: 137، رقم:4638)
‘‘میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں’’
مقام و مرتبہ
مدینہ کے سب سے بڑے قاضی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تھے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے کوئی بات ثابت ہوجاتی تو ہم کسی دوسرے کی جانب رجوع نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے زیادہ مہربان ابوبکر، دین الہٰی میں سب سے زیادہ شدید عمر، سب سے زیادہ حیا والے عثمان اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔
(ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 41،64)
سخاوت
جودو سخا میں فرق یہ ہے کہ سخی وہ ہوتا ہے جو خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور جواد وہ ہے جو خود نہ کھائے بلکہ دوسروں کو بغیر کسی غرض و عوض کے کھلائے اور بخیل وہ ہے جو نہ خود کھائے اور نہ دوسروں کو کھلائے۔ جواد حقیقی حق سبحانہ کی صفت ہے جو بغیر کسی غرض و عوض کے مخلوقات کو نوازتا ہے اور پھر اللہ کی عطا سے اس کائنات کے سب سے بڑے جواد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اس صفت جوادیت سے اپنے تمام صحابہ کرام کو نوازا ہے۔ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی جودوسخا کے ضمن میں قرآن مجید میں اللہ پاک نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً.
(البقره، 2: 274)
‘‘جو لوگ (اﷲ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں ’’
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا. وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا.
(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے۔ اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔
(الدهر، 76: 7، 8)
مہمان نوازی
ایک دن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رونے لگے تو لوگوں نے دریافت کیا آپ کیوں رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس لیے رو رہا ہوں کہ سات دن سے کوئی مہمان میرے گھر نہیں آیا۔
شجاعت و بہادری
شجاعت میں آپ کی ذات گرامی بے مثل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو باروئے خبیر شکن، پنجہ شیر افگن عطا فرمایا۔ بارگاہ نبوت سے آپ کو اسداللہ کا لقب عطا ہوا۔ غزوہ بدر، غزوہ احد غزوہ خندق، غزوہ خیبر سے شہادت تک قدم قدم پر آپ نے فقیدالمثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔
اقوال مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم
آپ کے اقوال روشنی کے وہ مینار ہیں جن پر عمل کرکے آدمی جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ہدایت کا نور حاصل کرلیتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہوجانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے۔ *
تکلیف سے چشم پوشی کرو ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ *
جس درخت کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔ (لہذا انسان کو نرم دل ہونا چاہئے) *
مخالفت صحیح و درست رائے کو بھی برباد کردیتی ہے۔ *
عورتوں کی اچھی عادتیں مردوں کی بدترین صفتیں ہیں جیسے اترانا، بزدلی، کنجوسی، جب عورتیں اتراتی ہو تو وہ اپنے اوپر کسی کو قابو نہیں حاصل کرنے دیتی اور جب کنجوس ہو تو اپنا اور شوہر کا مال بچاتی ہیں اور جب بزدل ہوتی ہے تو ہر آنے * والی مصیبت (عزت و ناموس سے ڈرتی ہے)۔
صدقے سے رزق بڑھاؤ۔ جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔ *
* نماز ہر متقی کے لیے وسیلہ تقرب ہے اور حج ہر کمزور کے لیے جہاد ہے ہر شے کی ایک زکوٰۃ ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ بہترین برتاؤ ہے۔*
جو میانہ روی سے کام لے گا وہ محتاج نہ ہوگا۔ *
انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔ *
سب سے بھاری وہ گناہ ہے جسے مرتکب کرنے والا ہلکا سمجھے۔ *
شہادت
17 رمضان المبارک 40 ہجری کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نماز فجر کے لیے گھر سے تشریف لے گئے راستے میں آپ لوگوں کو نماز کے لیے آواز دے دے کر جگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں ازلی بدبخت خارجی ابن ملجم سے سامنا ہوا اور اس نے اچانک آپ پر تلوار کا ایک بھرپور وار کیا وہ اتنا شدید تھا کہ آپ کی پیشانی مبارک کنپٹی تک کٹ گئی۔ اتنی دیر میں چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اور قاتل کو پکڑ لیا۔ زخم بہت کاری تھا آپ جمعہ و ہفتہ تک بقید حیات رہے مگر اتوار کی شب آپ کی روح پاک بارگاہ اقدس کی طرف پرواز کرگئی۔ حضرت امام حسن حضرت امام حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر نے آپ کو غسل دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
روضہ مبارک
آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نجف اشرف (عراق) میں مدفون ہیں۔
کسے رامیر نہ شد ایں سعاد
بکعبہ ولادت بمسجد شہادت