حضرت علی علیہ السلام کو مشکل کشا کا لقب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا

Share:

علم اور ولایت

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کر کے ولایت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ ولایت ہی فیض نبوت ہے۔ ولایت علم صحیح سے جنم لیتی ہے اور اہل ایمان میں علی سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ امت میں علم و حکمت اور معرفت کے دس حصہ تقسیم کیے گئے، ان 10 میں 9 حصے حضرت علی علیہ السلام کو دیئے گئے، باقی ایک حصہ ساری امت میں تقسیم ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد سب سے بڑا عالم علی المرتضیٰ ہے۔

ولایت کے باب میں حقیقت یہ ہے کہ ولایت اور علم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی ولی ہو اور عالم نہ ہو۔ اللہ کا ولی کبھی جاہل نہیں ہو سکتا اور جاہل شخص کبھی ولی نہیں ہو سکتا۔ جو قرآن و سنت اور دین کے علم سے محروم ہے تو وہ ہر ثواب تو پا سکتا لیکن ولی نہیں ہو سکتا۔

روحانی طور پر علی علیہ السلام سے قطع تعلقی رکھنے والا علم ولایت سے کبھی بہرہ یاب نہیں ہو سکتا۔ جو علی کی ولایت سے کتراتا اور ان سے محبت نہیں رکھتا تو وہ علم ولایت کے اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتا، جس کا دروازہ علی ہے۔

مشکل کشا کا لقب

صحیح بخاری کے مطابق حضرت علی کو ’’مشکل کشا‘‘ کا لقب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا۔ اپنے دور خلافت میں جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آتا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ علمی مشکل علی کے بغیر حل نہیں ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر علی میرے ساتھ نہیں ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔

ولی کا تصرف

قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ صبا کا واقعہ ولایت کے علمی مقام کی دلیل ہے۔ جب ملکہ صبا کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں لانے کا ذکر ہوا تو فوری جنوں کے سردار نے تخت لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس نے کہا کہ آپ کی نشست ختم ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک جن کی یہ پیشکش مسترد کر دی کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ اللہ کا کوئی ولی یہ کام کرے۔ پھر ایک اللہ کا ولی اور عالم شخص اٹھا، جس کو کتاب کا علم تھا۔ اس ولی اللہ نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ملکہ عالیہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ جب تخت لے آیا تو اس اللہ کے ولی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں لایا بلکہ کہا کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے۔

طریقت کے باب میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ولی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز یا کام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا اور دعوی بھی نہیں کرتا۔ جس بندے پر اللہ کا فضل ہو تو وہ دعویٰ نہیں کرتا بلکہ عاجزی سے جھک جاتا ہے۔

مومنین کے ولی علی

حضرت علی ہر مومن کے ولی ہیں۔ ولایت اور علم کے باب میں آپ کو امت محمدی کے لیے چشمہ بنا دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ واپسی پر راستے میں غدیر خم کے مقام پر حضرت علی کی ولایت کا اعلان فرمایا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ 12 بدری صحابہ کی جماعت نے گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی اور مولا ہوں علی بھی اس کا ولی دوست اور مولا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ جو علی سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے۔

بشارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اسی طرح آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگوں میں تمہارے اندر دو بڑی اہم اور عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسری میری اہل بیعت ہے۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔ رہتی دنیا تک قرآن اور اہل بیعت اکھٹے رہیں گے۔ حتی کہ قیامت کے دن بھی دونوں قرآن اور میری اہل بیعت میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کو اپنی اہل بیعت میں باقاعدہ شامل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوہ تبوک میں تشریف لے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا کہ آپ ادھر ہی رہو۔ جب علی نے ساتھ نہ لیجانے کا شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ مجھ سے تمہارا رشتہ وہ ہے، جو سیدنا ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے، سوائے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

فتح خیبر

اسی طرح جب خیبر فتح نہیں ہو رہا تھا تو فتح کا جھنڈا علی علیہ السلام کو تھمایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھ یہ گواہی بھی دی کہ صرف علی اللہ اور رسول سے محبت ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کا رسول بھی علی سے محبت کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے خیبر کا جھنڈا علی کو تھما کر فتح خیبر کا بھی اعلان فرما دیا اور الگے دن سب نے دیکھا کہ خیبر میںفتح علی کے ہاتھوں سے ملی۔

Share: