حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی معاشی اصلاحات
تعارف
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گزری۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری زندگی مخلوق خدا کی خدمت اور بھلائی کے کاموں میں گزاری ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر گامزن کیا وہاں معاشرے میں پسے ہوئے طبقات کی بحالی کا کام سرانجام دیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی نظام کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکومت کے استحکام کے لئے جو معاشی نظام عطا کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حقیقی نظام کو باقاعدہ ملکی سطح پر انتظامی محکمہ جات کی صورت میں قائم کیا۔ جس نظام نے تمام طبقات کو متاثر کیا وہ نظام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپ نے ملکی ترقی کے لئے مجلس شوریٰ، ٹیکس اور بیت المال کے شعبے قائم کئے۔ دفاع کے لئے فوج اور پولیس کا نظام مرتب کیا۔ عوام کی بھلائی کے لئے عدالت کا نظام، صوبوں کی تقسیم اور ڈاک کا نظام قائم کیا۔ آپ کے دور حکومت میں غیر مسلموں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے معاشی نظام کے اہم پہلو درج ذیل تھے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نظام محاصل
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ملک کے معاشی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ٹیکس کے نظام کا نفاذ کیا۔ اس سلسلہ میں آپ نے زمینوں کی پیمائش اور غیر مسلم کاشت کاروں پر ان کی برداشت سے زیادہ ٹیکس نہیں لگانا چاہتے تھے۔
دورِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں ٹیکس کا نظام اتنا بہتر ہوگیا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
کان خراج السواد علی عهد عمر بن الخطاب رضی الله عنه مائة الف درهم.
(بلاذری، احمد بن يحيیٰ بن جابر، امام ابی العباس، فتوح البلدان، موسسة المعارف، بيروت، 1403ھ، ص:270)
’’امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سواد سے ایک لاکھ درہم ٹیکس وصول ہوا تھا‘‘۔
ٹیکس کی وصولی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایات
ٹیکس ملکی آمدن کا اہم ذریعہ ہوتا ہے اس میں مسلم اور غیر مسلم سب شریک ہوتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کا خیال رکھتے تھے ان پر ان کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہ ڈالتے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت اسلم فرماتے ہیں:
ان عمر رضی الله عنه کتب الی امراء الاجناد: ان لا يضربوا الجزية علی النساء ولا علی الصبيان.
(عبدالرزاق، ابوبکر بن همام بن نافع، المصنف، المکتب الاسلامی، بيروت، لبنان، 1403ه، 85:6، رقم:10009)
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سپہ سالاروں کو خط لکھا کہ وہ غیر مسلم عورتوں اور بچوں پر ٹیکس نافذ نہ کریں‘‘۔
ٹیکس کی وصولی میں سختی کی ممانعت
ٹیکس کی وصولی ایک مشکل عمل ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دوسرے صوبے سے بہت سا مال آیا۔ یہ مال ٹیکس سے ہی حاصل کیا جاتا تھا امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ زیادہ مال کو دیکھ کر فرمانے لگے کہ یہ مال کسی پر ظلم یا سختی کرکے تو نہیں لائے۔ اس کو امام قدامہ بیان فرماتے ہیں:
انی لاظنکم قد اهلکتم الناس، قالوا: لا، والله، مااخذنا الا عفوا صفوا قال: بلا سوط ولا بوط، قالوا: نعم قال: الحمدلله الذی لم يجعل ذلک علی يدی ولا فی سلطانی.
(ابن قدامه، ابو محمد عبدالله بن احمد المقدسی، دارالفکر، بيروت، لبنان، 1405ه، 290: 9)
’’میں خیال کرتا ہوں کہ تم نے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم نے یہ ٹیکس معافی اور نرمی کے ساتھ ہی وصول کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: بغیر کسی سختی کے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دعا کی: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میرے ہاتھ سے میری حکمرانی میں غیر مسلموں پر یہ زیادتی نہیں ہونے دی‘‘۔
ٹیکس کی وصولی میں حسن سلوک اور نرمی کی تلقین
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ، فرمان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اپنی رعایا سے نرمی برتتے تھے۔ ایک دفعہ شام کے سفر میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے عامل ٹیکس وصول کرنے کے لئے غیر مسلموں کو دھوپ میں کھڑا کردیتے ہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے عاملوں کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:
فدعوهم، لاتکلفوهم مالا يطيقون، فانی سمعت رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقول: لا تعذبوا الناس فان الذين يعذبون الناس في الدنيا يعذبهم الله يوم القيامة.
(ابويوسف، يعقوب بن ابراهيم، کتاب الخراج، دارالمعرفه، بيروت، لبنان، ص: 135)
’’ان کو چھوڑ دو، ان کو ہرگز تکلیف نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، میں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے لوگوں کو عذاب نہ دو، بے شک جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا‘‘۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کڑی سزا کو ترک کردیا گیا۔ اسی طرح ہشام بن حکم نے حمص کے ایک غیر مسلم قبطی کو ٹیکس وصول کرنے کے لئے دھوپ میں کھڑا دیکھا۔ اس پر انہوں نے سرکاری افسر کی ملامت کی اور کہا میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:
ان الله يعذب الذين يعذبون الناس فی الدنيا.
(ابوداؤد، سليمان بن اشعث سجستانی، السنن، دارالفکر، بيروت، لبنان، 1994ء، 106: 3، رقم: 3045)
’’بے شک اللہ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں‘‘۔
عمر رسیدہ افراد کے لئے ٹیکس کی معافی
امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں بلا رنگ و نسل و ملک و ملت رعایا کو آرام و سکون پہنچایا جاتا بلکہ ان کے لئے نرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کا نہ صرف ٹیکس معاف کردیا جاتا تھا بلکہ ضعفاء کے لئے وظائف کا تعین بیت المال سے کیا جاتا تھا اور ان کی اور ان کے اہل خانہ کی کفالت بھی کی جاتی تھی۔
مشہور امام ابو عبید القاسم بن سلام ’’کتاب الاموال‘‘ میں اس امر کے متعلق یوں رقمطراز ہیں:
ان اميرالمومنين عمر رضی الله عنه مربشی من اهل الذمة، يسئال علی ابواب الناس: فقال: ما انضفناک ان کنا اخذنا منک الجزية في شبيتک ثم ضيعناک في کبرک. قال: ثم اجری عليه من بيت المال ما يصله.
(ابوعبيد، قاسم بن سلام، کتاب الاموال، دارالفکر، بيروت، لبنان، 1988ء، ص:57، رقم:119)
’’بے شک امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ غیر مسلم شہریوں میں سے ایک بوڑھے شخص کے پاس سے گزرے جو لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ ہم نے تمہاری جوانی میں تم سے ٹیکس وصول کیا پھر تمہارے بڑھاپے میں تمہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی ضروریات کے لئے بیت المال سے وظیفہ کی ادائیگی کا حکم جاری فرمایا‘‘۔