موئے مبارک سے حصولِ برکت
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو :
ناول الحالق شِقَّه الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأيسر، فقال : احلق. فحلقه، فأعطاه أبا طلحة، فقال : اقسمه بين الناس.
مسلم، الصحيح، 2 : 948، کتاب الحج، رقم : 1305
ابن حبان، الصحيح، 9 : 191، رقم : 3879
حاکم، المستدرک، 1 : 647، رقم : 1743
ترمذي، الجامع الصحيح، 3 : 255، ابواب الحج، رقم : 912
نسائي، السنن الکبری، 2 : 449، رقم : 4116
ابوداؤد، السنن، 2 : 203، کتاب المناسک، رقم : 1981
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 111، 214
حميدي، المسند، 2 : 512، رقم : 1220
بيهقي، السنن الکبري، 5 : 134، رقم : 9363
ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 299، رقم : 2928
بغوي، شرح السنة، 7 : 206، رقم : 1962
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا : مونڈ دو، اس نے ادھر کے بال بھی مونڈ دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔‘‘
2۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لما حلق رأسه، کان أبو طلحة أولَ من أخذَ من شعره.
بخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 169
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ہی پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک لیے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا و مافیہا سے عزیز جانتے
3۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں :
قلت لعبيدة : عندنا من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، أصبناه من قِبَل أنس، أو من قِبَل أهل أنس، فقال : لان تکون عندي شعرة منه أحب إليّ من الدنيا وما فيها.
ُبخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 168
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 67، رقم : 13188
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 201
’’میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے۔‘‘
عسقلانی، فتح الباری، 1 : 274
ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
لأن يکون عندي منه شعرة أحب إلي من کل صفراء و بيضاء اصبحت علي وجه الأرض.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 256، رقم : 13710
بيهقي، السنن الکبري، 2 : 427، رقم : 4032
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 42
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 506
ابن سعد، الطبقات الکبري، 6 : 95
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے روئے زمین کے تمام سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے بیمار شفایاب ہوئے
5۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أرسلَنی أهلی إلی أم سلمة بقدح من ماء، و قبض إسرائيل ثلاث أصابع من فضة فيه شعر من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و کان إذا أصاب الإنسانَ عين أو شئ بعث إليها مِخْضَبَة. فاطلعت في الجُلْجُل فرأيتُ شعراتٍ حمرًا.
بخاري، الصحيح، 5 : 2210، کتاب اللباس، رقم : 5557
ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 5 : 510
’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس پانی کا (ایک چاندی کا) پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کچھ ہو جاتا تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘
6۔ علامہ بدر الدین عینیرحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔ اگر کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہوجاتا تو وہ اپنی بیوی کو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس برتن دیکر بھیجتے جس میں پانی ہوتا اور وہ اس پانی میں سے بال مبارک گزار دیتیں اور بیمار وہ پانی پی کر شفایاب ہوجاتا اور اس کے بعد موئے مبارک اس برتن میں رکھ دیا جاتا۔
عينی، عمدةالقاری، 22 : 49
7۔ حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، و فيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437
’’ہمارا ایک سونے کا برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے، اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال تھے۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا۔‘‘
8۔ حضرت عکرمہ بن خالد رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :
عندی من شعر رسول اﷲ مخضوب مصبوغ فی سکة.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437
’’ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال ہیں جو رنگین اور خوشبودار ہیں۔‘‘
موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پروانہ وار بڑھتے
9۔ اسی طرح ایک اور روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
لقد رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، والحَلّاق يَحلِقه وأطاف به أصحابه، فما يريدون أن تقع شعرة إلا في يد رجل.
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2325
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 – 12423
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 430
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 181
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 68، رقم : 13189
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 189
عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1273
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 188
’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے اور چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پسِ مرگ بھی موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصولِ برکت کے خواہاں تھے۔
10۔ ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
هذه شعرة من شعر رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فضعها تحت لساني. قال : فوضعتها تحت لسانه، فدفن و هي تحت لسانه.
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 127
’’یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘
موئے مبارک کی برکت سے شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی صحت یابی
موئے مبارک کے کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میںملتا ہے۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ میں اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیز کی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو)! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ تشریف لائیں گے۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کردیں بس اسی لمحے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’کيف حالک يا بنی؟
بیٹے عبدالرحیم! تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اور اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دیئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا کہ یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صحتِ کلی اور درازئ عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھا ہے یہ وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی۔
ان موئے مبارک کے خواص میں سے تین کا ذکر کیا جاتاہے۔
1۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے۔
2۔ ایک مرتبہ تین منکرین نے امتحان لینا چاہا اور ان موئے مبارک کو دھوپ میں لے گئے۔ غیب سے فوراً بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا جس نے ان موئے مبارک پر سایہ کرلیا حالانکہ اس وقت چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ان میں سے ایک تائب ہوگیا۔ جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو باقی دونوں بھی تائب ہوگئے۔
3۔ ایک مرتبہ کئی لوگ موئے مبارک کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے ہرچند کوشش کی مگر تالا نہ کھلا۔ اس پر شاہ صاحب نے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک شخص جنبی ہے۔ شاہ صاحب نے پردہ پوشی کرتے ہوئے سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جنبی کے دل میں چور تھا، جوں ہی وہ مجمع میں سے نکلا فوراً قفل کھل گیا اور سب نے موئے مبارک کی زیارت کرلی۔
پھر والد بزرگوار نے عمر کے آخری حصے میں ان کو بانٹ دیا جن میں ایک مجھے بھی مرحمت فرمایا جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔
شاه ولی الله، انفاس العارفين : 40، 41
4۔ جنگ میں فتح کے لئے موئے مبارک کا توسل
حضرت صفیہ بنت نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک دفعہ وہ ٹوپی کسی جہاد میں گرپڑی تواس کے لینے کیلئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے، اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لم أفعلْها بسبب القَلَنْسُوة، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه صلی الله عليه وآله وسلم لئلا أسْلَب برکتها وتقع فی أيدی المشرکين.
قاضی عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 619
’’میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور دوسرا یہ کہ یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ لگ جائے۔‘‘
موئے مبارک کی برکت سے جنگ یرموک میں مسلمانوں کی فتح
تاریخ واقدی اور دیگر کتب سیر میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز مسلمانوں کے قلیل لشکر کا دُشمن سے آمنا سامنا ہوا تو اُنہوں نے رومیوں کے بڑے افسر کو مار دیا، اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب فوج کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کی حالت نہایت نازک تھی اور رافع ابن عمر طائی نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا ’’آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : سچ کہتے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ ٹوپی بھول آیا ہوں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو فوج کے سپہ سالار تھے خواب میں زجر وتوبیخ فرمائی کہ تم اس وقت خواب غفلت میں پڑے ہو اٹھو اور فوراً خالد بن ولید کی مدد کو پہنچو کہ کفارنے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤ گے۔ ابو عبیدہ نے اسی وقت لشکر کو حکم دیا کہ جلد تیار ہو جائے چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا ہے اس طرح کہ کوئی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شایدکوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جا رہا ہے مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں، جب قریب پہنچے تو پکار کر اس جوان کو توقف کرنے کے لئے کہا یہ سنتے ہی وہ جسے ہم جوان سمجھ رہے تھے رکا تو ہم نے دیکھا کہ وہ تو خالد بن ولید کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ ان سے حال دریافت کیا گیا تو وہ گویا ہوئیں : کہ اے امیر! جب رات کے وقت میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن ولید کو دشمن نے گھیر لیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، مگر اتفاقاً ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جو وہ گھر بھول آئے تھے اور جس میں موئے مبارک تھے۔ بعجلتِ تمام میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کوان تک پہنچا دوں۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جلدی سے جاؤ خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئیں۔ حضرت رافع بن عمر جو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ حالت تھی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی تہلیل و تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو تجسس ہوا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ اچانک ان کی رومی سواروں پر نظر پڑی جو بدحواس ہو کر بھاگے چلے آ رہے تھے اور ایک سوار ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑا کر اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جوانمرد تو کون ہے؟ آواز آئی کہ میں تمہاری اہلیہ ام تمیم ہوں اور تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے تم دشمن پر فتح پایا کرتے تھے۔
راوئ حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب خالد رضی اللہ عنہ نے ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
محمد انوار اﷲ فاروقی، مقاصد الاسلام، 9 : 273 – 275
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو موئے مبارک میں جو برکت دکھائی دیتی تھی وہ اہل عقول کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ وہ کیا چیز ہے حسی یا معنوی جو بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح بالائی پر وہ چاہے کتنی ہی موشگافیاں کریں ان کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئیں اور معلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور امداد غیبی کا مل جانا اس برکت کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے فتح موئے مبارک کی برکت سے حاصل ہوتی تھی۔
عبدالحمید بن جعفر سے روایت ہے کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سر سے غائب تھی جب تک وہ نہیں ملی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے اور ملنے کے بعد اطمینان ہوا۔اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایا کہ :
فما وجهت فی وجه الا فتح لی.
ابو يعلی، المسند، 13 : 138، رقم : 7183
عسقلانی، الا صابه فی تمییز الصحابه، 1 : 414
واقدی، المغازی، 2 : 884
“میں نے جدھر بھی رخ کیا اس موئے مبارک کی برکت سے فتح حاصل کی۔”
اسی طرح تاریخ واقدی میں یہ واقعہ درج ہے کہ جنگ یرموک کے ایک معرکے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ایک نسطور نامی پہلوان سے ہوا۔ یہ مقابلہ دیر تک رہا، اچانک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور آپ کی ٹوپی زمین پر گرگئی۔ آپ ٹوپی اٹھانے میں لگ گئے اور اتنے میں وہ پہلوان آپ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ آپ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔ میری ٹوپی مجھے واپس دلادو۔ ٹوپی آپ کو دی گئی جسے پہن کر آپ رضی اللہ عنہ نسطور پر غالب آگئے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ بعد میں لوگوں نے کہا آپ نے یہ کیا حرکت کی اور ایک ٹوپی کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیا۔ آپ نے بتایا کہ وہ ٹوپی معمولی ٹوپی نہ تھی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سلے ہوئے تھے۔