سوال: مکہ مکرمہ کی فضیلت کیا ہے؟
جواب: مکہ مکرمہ اس پوری کائناتِ ارضی میں وہ بابرکت جگہ اور رحمتوں والا مقام ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے شہروں سے بڑھ کر اعلیٰ و مقدس شہر کی حیثیت عطا کی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس شہر دلنواز اور اس مرکزِ بخشش کو خلعتِ انوار میں لپیٹے ہوئے اپنے برگزیدہ بندے اور عالم خلق میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہستی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کے لئے منتخب کیا۔ اپنے دین کی اشاعت اور ترویج و فروغ اور اپنے گھر بیت اللہ شریف کا حج کرنے کے لئے اس شہر بےمثال کو منتخب فرمایا، اسی وجہ سے اس ارض مقدس کو دنیا بھر کے شہروں پر فضلیت و برتری عطا کی سرِزمین مکہ وہی جگہ ہے جسے خود رب العزت نے لوگوں کے دلوں میں محبت کے لئے منتخب فرمایا اور پھر انہیں یہاں حج کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِo
(البقرة، 2: 125)
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘
دنیا کا یہ واحد بابرکت شہر ہے جس کو امن کی جگہ بنانے اور اسے نوع بہ نوع پھلوں سے نوازنے کے لئے جد الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوئے۔ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی اس التجا کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُo
(البقرة، 2: 126)
’’اور جب ابراہیم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لیے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘
یہ شہر خوباں نزول وحی و ملائکہ کا مرکز، انبیاء و اولیاء کا ٹھکانہ و مدفن، ہر چیز کی پیدائش کا موجب و سبب اور ہر انعامِ خداوندی کی بنیاد ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی واضح اور کھلی نشانیاں ہیں جن کی زیارت سے جہاں ایمان کو حلاوت اور چاشنی ملتی ہے وہاں استقرار و استحکام بھی میسر آتا ہے۔ ان ہی میں سے مقام ابراہیم ہے، صفا و مروہ ہے، آب زم زم و حجرِ اسود ہے، حتیٰ کہ یہی وہ شہر ہے جس میں اللہ کا گھر ’’بیت اللہ‘‘ ہے جس میں ادا کی جانے والی ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز کا اجر و ثواب رکھتی ہےاس کے ارد گرد تین سو انبیاء علیھم السلام کے مزارات ہیں، اس شہر امن میں داخل ہونے والے کو امن و امان مل جاتا ہے۔ خونریزی و سفاکی کی یہاں ممانعت ہے کسی بھی انسان کا حق و ناحق خون نہیں بہایا جاسکتا۔ اس عظمت و بزرگی والے شہر میں حلال تو درکنار حرام جانور کا شکار بھی گناہ ہے۔ اس کے درختوں اور شاخوں کا کاٹنا بھی حرام ہے۔ یہ اس قدر امن والا شہر ہے کہ ہر ذی روح اور غیر ذی روح اس کے سائے میں محفوظ و مامون ہے۔ یہاں قدم قدم پر عافیت کے شامیانے نصب ہیں۔ امن و سکون اور رحمتوں کا بحرِ بےکنار، یہ وہ عظیم الشان شہر ہے جس کی عظمت اور فضلیت کی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں قسمیں کھائی ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے:
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo
(البلد، 90: 1-2)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘
اسی طرح مکہ مکرمہ کی فضیلت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے اظہارِ محبت یوں فرمایا:
’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی فضل مکة، 5: 679-680، رقم: 3926)