سوال: حج بدل کسے کہتے ہیں اور اس کی شرائط کیا ہیں؟
جواب: حج بدل یعنی نائب بن کر دوسرے کی طرف سے حج فرض ادا کرنا کہ اس پر سے فرض ساقط ہو جائے اسے حج بدل کہتے ہیں۔ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک والک وسلم! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج واجب ہوچکا ہے اور وہ اپنے اونٹ کی پشت پر بیٹھ نہیں سکتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی طرف سے حج کر لو۔
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب الحج عن العاجز لزمانهٖ وهرم ونحوهما، 2: 974، رقم: 1335
حجِ بدل کی شرائط درج ذیل ہیں:
اگر کسی کو کوئی ایسی معذوری لاحق ہو جو بالعموم مرتے دم تک رہے مثلًا نابینا ہونا۔ یا ایسا عاجز شخص جسے مرتے دم تک حج کے قابل ہونے کی امید نہ رہے، اور وہ کسی کو اپنا نائب بنا دے کہ وہ اس کی طرف سے حج ادا کرے اور وہ نائب حج ادا کرلے تو فریضہ حج اس معذور کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔ اگرچہ بعد میں وہ معذوری دور ہو جائے اور وہ حج کے قابل ہو جائے۔ لیکن ایسا مریض جسے شفا پانے کی امید ہو یا وہ شخص جو قید میں ہو، اگر کسی کو اپنا نائب بنائے اور وہ نائب اس کی جانب سے حج ادا کرے اور بعد میں اس کی معذوری دور ہو جائے یعنی شفا یاب ہو جائے یا قید سے رہائی مل جائے تو فریضہ حج اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔
حج کرانے والے کی طرف سے حج کی نیت کرنا ہے لہٰذا اسے یوں کہنا چاہئے کہ فلاں شخص کی طرف سے احرام حج باندھتا اور تلبیہ کرتا ہوں۔ یہ نیت دل میں کر لینا بھی کافی ہے اگر نائب نے حج کی نیت اپنی طرف سے کی تو نائب بنانے والے کی طرف سے حج ادا نہ ہوگا۔
جس کی طرف سے حج کیا جائے اس کے حکم کے بغیر حج نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر کسی کے وارثوں میں سے کسی نے یا کسی غیر شخص نے از خود نیکی کے خیال سے اس کی جانب سے حج کیا تو انشاء اللہ یہ حج اس کی طرف سے قبول ہو جائے گا۔
حج کرنے کی کوئی اجرت مقرر نہ کی جائے۔ حج کرانے والے پر اخراجات ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حج کے اخراجات کے لئے جو رقم دی گئی ہے اگر اس میں سے کچھ رقم بچ گئی تو حج بدل کرنے والے کو چاہئے کہ باقی رقم حج کرانے والے کو واپس دے دے۔ البتہ ثواب کے خیال سے حج کرانے والا یا وارث وہ رقم چھوڑ سکتا ہے۔
حج بدل کرانے اور حج بدل کرنے والا دونوں کا مسلمان اور عاقل ہونا لازم ہے، لہٰذا کافر کا کسی کی طرف سے حج کرنا صحیح نہ ہوگا اور نہ دیوانے کا حج صحیح ہے۔ اگر حج واجب ہونے کے بعد اس کو جنون کا مرض لاحق ہوا تو اسے کسی کو حج کے لئے روانہ کرنا درست ہوگا۔
حج بدل کرنے والا صاحب شعور ہو، لہٰذا کسی لڑکے کا جو سن شعور کو نہ پہنچا ہو حج بدل کرنا درست نہیں ہے کم عقل والا انسان یا قریب البلوغ شخص حج بدل کر سکتا ہے اسی طرح عورت اور غلام بھی حج بدل کر سکتے ہیں اسی طرح وہ بھی حج بدل کر سکتا ہے جس نے اپنا حج ادا نہ کیا ہو۔ تاہم یہ مکروہ ہے۔
حج بدل کے لئے احرام ایک ہی باندھا جائے گا۔ اگر ایک احرام حج بدل کا اور دوسرا احرام اپنے حج کا باندھا تو اس طرح دونوں میں سے کسی کا حج نہ ہوگا۔ بجز اس کے کہ دوسرے احرام کو ختم کر دے اسی طرح اگر دو اشخاص نے کسی ایک کو اپنے اپنے حج کا نائب بنایا اور اس نے دونوں کا احرام باندھا (اور حج کیا) تو وہ حج درست نہ ہوگا اور وہ دونوں کے اخراجات کی واپسی کا ذمہ دار ہوگا۔
مندرجہ بالا تمام شرائط حج بدل اس صورت میں ہیں جبکہ کسی پر حج فرض ہو۔