سوال : حج و عمرہ کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟

Share:

جواب: حج اور عمرہ ادا کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:

حج اور عمرہ کا ارادہ کرنے والے کو اختیار حاصل ہے کہ درج ذیل تین صورتوں میں سے جو حج کرنا چاہے اس کی نیت کر لے:

حج افراد: اس میں حاجی صرف حج کا احرام باندھے اور عمرہ کئے بغیر 8 ذوالحجہ کو سیدھا منیٰ چلا جائے اور حج کے احکامات بجا لائے۔
حج قران: اس میں حاجی ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرتا ہے۔
حج تمتع: اس میں حاجی حج اور عمرہ کو الگ الگ احرام کے ساتھ ادا کرتا ہے یعنی حج کے مہینوں میں احرام باندھ کر عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیتا ہے اور پھر حج کے ارادے سے 8 ذوالحجہ کو پھر احرام باندھ کر حج کے مناسک ادا کرتا ہے۔
مندرجہ بالا تینوں صورتوں میں تمتع نسبتاً آسان حج ہے تاہم اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے حج قران افضل ترین ہے لیکن اس صورت میں جبکہ ممنوعات احرام میں سے کسی امر ممنوع کے سرزد ہونے کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ حج قران میں لمبے عرصہ تک حالت احرام میں رہنا ہوتا ہے اگر ایسی کسی بات کے سرزد ہونے کا اندیشہ ہو تو تمتع ہی سب سے افضل ہے کیونکہ اس میں انسان کے لئے اپنے نفس پر قابو رکھنا آسان ہے۔

حج تمتع کی ادائیگی کا ارادہ کرنے والا شخص جسم کی ظاہری صفائی کا بطور خاص اہتمام کرے یعنی احرام باندھنے سے قبل ناخن تراشے، غیر ضروری بالوں کو صاف کرے، غسل کرے، اس کے بعد خوشبو لگا کر صاف اور سفید احرام باندھے یعنی ایک چادر بطور تہبند باندھ لے اور دوسری چادر کندھوں پر اوڑھ لے اور سر ننگا رکھے۔ اسی طرح عورت سلے ہوئے پاک صاف کپڑے پہنے، پھر میقات پہنچ کر فرض یا نفل نماز ادا کرے اور یہ کہتے ہوئے عبادتِ حج کی نیت کرے:

اللّٰهُمَّ اِنِیّ اُرِیْدُ الحَجَّ فَیَسِّرْهُ لِی وَتَقَبَّلَهُ مِنِّیْ.

پھر کہے:

لَبَّیْکَ اللّٰهُمَّ! لَبَّیْکَ. لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ.
اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْک لَا شَرِیْکَ لَکَ.

مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب التلبیۃ وصفھا وفیھا، 2: 841، رقم: 1184

اور اگر عمرہ کا ارادہ ہے تو حج کی بجائے عُمْرَةً کہے اور اگر دونوں کا ارادہ ہے تو ’’حَجًّا وَّ عُمْرَۃ‘‘ کہے۔

اور اونچی آواز کے ساتھ تین بار تلبیہ پڑھے، البتہ عورت بہت اونچی آواز میں نہ پڑھے بلکہ صرف اتنی آواز میں پڑھے کہ وہ خود سن لے۔

تلبیہ سے فارغ ہونے کے بعد دعا مانگے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں پر نظر نہ ڈالے اور تمام راستہ نیکی اور اچھے کام کرتا رہے تاکہ اس کا حج مبرور ہو جائے۔ بنا بریں محتاج لوگوں کے ساتھ احسان کرے، ساتھیوں کے ساتھ ہشاش بشاش رہے ان کے ساتھ باتیں نرم انداز سے کرے۔

جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ جائے تو بلند جگہ کی طرف سے داخل ہو۔ مسجد حرام میں باب بنی شیبہ (باب السلام) سے اندر داخل ہونے سے قبل تازہ وضو کریں پھر بڑے ہی والہانہ عشق و محبت، ذوق و شوق اور عجز و انکساری کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے سیدھا پاؤں اندر رکھے اور یہ دعا پڑھے:

بِسْمِ اللہ وَبِالله وَإِلَی اللہ، اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِکَ.

’’اللہ کے نام سے اور اس کی مدد سے اسی کی طرف (آ رہا ہوں) اے اللہ! میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘

جب بیت اللہ کی پہلی زیارت نصیب ہو تو نہایت خشوع و خضوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہے اور اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر جو چاہے دعا مانگے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کعبہ کی زیارت کے وقت رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دعا قبول کی جاتی ہے۔

حضرت حذیفہ بن اسید سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بیت اللہ شریف کو دیکھا تو یہ دعا مانگی:

اَللَّهُمَّ زِدْ بَیْتَکَ هٰذَا تَشْرِیْفًا وَتَعْظِیْمًا وَتَکْرِیْمًا وَّبِرًّا وَمَهَابَةً، وَزِدْ مَنْ شَرَّفَه. وَعَظَّمَهُ مِمَّنْ حَجَّه وَاعْتَمَرَهُ تَعْظِیْمًا وَّ تَشْرِیفًا وَّ بِرًّا وَمَهَابَةً.

’’اے اللہ اپنے اس مقدس گھر کی عزت، تعظیم، تکریم، رحمت اور جلال میں اضافہ فرما اور ہر اس شخص کی تعظیم، تکریم، بزرگی، نیکی اور عزت میں اضافہ فرما جو اس کا حج یا عمرہ کرے۔‘‘

المواهب، 11: 378

طواف سے قبل مرد حضرات اضطباع کریں یعنی اپنا سیدھا بازو چادر سے باہر نکال لیں اب حجرِ اسود کے سامنے سے ذرا ہٹ کر رکن یمانی کی طرف اس طرح روبہ کعبہ کھڑے ہو کر حجرِ اسود دائیں طرف ہو یہاں کھڑے ہو کر طواف کی نیت کرے۔ نیت کے بعد حجر اسود کے مقابل ہو کر کانوں تک ہاتھ اس طرح اٹھائیں کہ ہتھیلیاں حجرِ اسود کی طرف رہیں اور کہیں:

بسم اللہ وَالْحَمْدُ ِاللہ وَاللہ اکْبَرُ وَالصّلوٰة وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہ.

اب ہاتھ چھوڑ دیں اب حجر اسود کو بوسہ دیں یا استلام کریں اگر بوسہ دینا اور ہاتھ لگانا ممکن نہ ہو تو اشارہ کر کے انہیں بوسہ دے لیں، اب کالی پٹی پر کھڑے کھڑے ہی اپنا رخ اس طرح تبدیل کریں کہ بیت اللہ آپ کے بائیں طرف ہو پھر رمل یعنی پہلوان کی طرح اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں سے ذرا تیز چلے، خواتین رمل نہ کریں یہ صرف مردوں کے لئے سنت ہے اور طواف کے دوران دعا کرے، ذکر و اذکار میں مشغول رہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے، اس طرح چلتے چلتے جب دوبارہ حجرِ اسود کے پاس پہنچے تو پہلے چکر کے خاتمہ پر یہ مسنون دعا پڑھے:

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘

البقرة، 2: 201

پھر اسی طرح دوسرا اور تیسرا چکر لگائے۔ چوتھے چکر میں رمل ترک کر دے اور (معمول کے مطابق) آہستہ آہستہ چلے اور باقی چار چکر پورے کرے، فارغ ہو کر ملتزم (بیت اللہ کے دروازہ) کے پاس آئے اور خشوع خضوع کے ساتھ روتے ہوئے دعا کرے پھر مقام ابراہیم کے قریب پہنچ کر دو رکعت واجب نماز ادا کرے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ کافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھے، اگر مقام ابراہیم کے پاس جگہ نہ ہو تو یہ نفل کسی جگہ بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے:

حضرت ام سلمہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے یہ نوافل حرم سے باہر ادا کئے تھے۔

وَلَمْ تصل حَتّی خرجت.

’’انہوں نے مسجد سے باہر نوافل ادا کئے۔‘‘

اب نماز سے فارغ ہو کر مقام ملتزم پر جا کر دعا کریں یہ قبولیت کا مقام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں پر بڑی عاجزی سے دیوار سے لپٹ کر دعا مانگتے تھے۔

پھر آبِ زمزم کے چشمہ پر جائے اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے کھڑے بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں جتنا پانی پی سکے پیئے اور جو چاہے دعا کرے، درج ذیل دعا بھی مستحسن ہے:

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا وَّاسِعًا وَّ شِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَاءٍ.

’’اے اللہ! میں تجھ سے مفید علم، وسیع روزی اور ہر بیماری سے شفا مانگتا ہوں۔‘‘

پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دے یا ہاتھ لگائے اگر موقع نہ مل سکے تو سابق طریقوں سے استلام بجا لاتے ہوئے باب صفا سے مقام سعی کی طرف بڑھتے ہوئے کوہ صفا پر چڑھ جائے اور کعبہ شریف کی طرف دیکھ کر ہاتھ اٹھائے دعا کرے۔

کوہ مروہ کی طرف چلنے کے ارادہ سے نیچے اترے، دوران سعی ذکر و دعا میں مشغول رہے جب وادی کے درمیان پہنچے جسے سبز ستون کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے وہاں سے دوسرے سبز ستون تک تیز تیز دوڑے۔ پھر آہستہ چلے اور ذکر و دعا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے میں مشغول رہے اور جب مروہ پر چڑھ جائے تو ایک چکر مکمل ہو گیا اور پھر نیچے اترے، آہستہ چلے درمیان میں آئے تو تیز دوڑے، پھر آہستہ چلے اور صفا پر چڑھ جائے تو دوسرا چکر مکمل ہو جائے گا۔ پھر مروہ کی طرف روانہ ہو جائے اور اسی طرح سات چکر پورے کرے، ہر چکر میں جب صفا یا مروہ پہنچے تو ہاتھ اٹھا کر قبلہ رخ ہو کر دعا کرے ساتویں پھیرے کے بعد اب سعی ختم ہوگئی آخر میں قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔ ابتداء صفا سے ہو گی اور انتہا مروہ پر ہو گی اب عمرہ کے تمام افعال مکمل ہو گئے اب مسجد حرام سے باہر آئیں۔ مرد حضرات حلق یعنی سارے بال منڈوائے یا تقصیر یعنی بال کتروائے اور خواتین سر سے ایک انگلی کی پور کے برابر بال کاٹیں، اب الحمداللہ آپ کا عمرہ مکمل ہو گیا۔

اگر آپ کا ’’حج تمتع‘‘ ہے تو احرام کھول دیں اب جو کام احرام کی وجہ سے ناجائز ہوئے تھے سب جائز ہو گئے بعد ازاں 8 ذوالحجہ کو حرم ہی سے حج کا احرام باندھ لیں، اگر صرف حج افراد کا احرام ہے یا حج قران یعنی حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھے احرام ہے تو وقوف عرفات اور جمرۂ عقبہ‘‘ کو کنکریاں مارنے کے بعد دس ذو الحجہ کو احرام کھولیں۔

مفرد اور قارن اپنے احرام پر قائم رہتے ہوئے جبکہ متمتع احرام باندھ کر 8 ذوالحجہ کی مبارک اور سہانی صبح سے حج کا آغاز کریں۔ حج کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ کہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آہستہ آواز میں درود و سلام پیش کریں پھر منیٰ کی طرف روانہ ہو۔ منیٰ میں دن رات رہے اور پانچ نمازیں مسجد خیف میں پڑھے یعنی ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور 9 ذوالحجہ کی نماز فجر ادا کرنے کے بعد ذکر و اذکار کریں اور سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے تلبیہ کہتا ہوا براستہ ضب وادی نمرہ کی طرف روانہ ہو اور زوال تک وہاں رہے، پھر غسل کرے، منیٰ سے ہی غسل کر لینا چاہئے وہاں معقول انتظام ہے، عرفات میں غسل کا کوئی انتظام نہیں اور مسجد نمرہ میں آئے اور امام کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد موقف کی طرف چلے اور عرفات کے میدان میں جہاں بھی چاہے ٹھہر جائے اور اگر جبل رحمت کے دامن میں چٹانوں کے پاس وقوف کرے تو بہتر ہے اس لئے کہ یہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقوف کا مقام ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَقَفْتُ هَهُنَا. وَعَرَفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ.

’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے جبکہ پورا عرفات کا میدان جائے وقوف ہے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب ماجاء ان عرفة کلها موقف، 2: 893، رقم: 1218

آپ کو اختیار ہے کہ سوار ہو کر، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر جیسے ممکن ہو دعا کریں۔ اپنے رب کریم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہوئے تکبیر و تہلیل، ذکر و دعا اور توبہ میں ڈوب جائیں کیونکہ یہ وقوف ہی حج کی جان اور اس کا بڑا رکن ہے۔

سورج غروب ہونے کا یقین ہو جائے تو فوراً مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائیں مگر شام سے قبل میدان عرفات سے نہ نکلیں۔ مزدلفہ میں داخل ہونے کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز میں تاخیر نہ کریں بلکہ ہو سکے تو امام کے ساتھ نماز باجماعت ادا کریں۔ یہاں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ یکے بعد دیگرے دو جماعتیں ہوں گی پہلے نماز مغرب کی اور پھر عشاء کی اور رات وہیں گزارے، صبح صادق ہونے کے بعد نماز فجر ادا کرے اور مشعر حرام کی طرف چلے اور وہاں تکبیر، تہلیل اور دعا میں مشغول ہو جائے۔ تاہم مزدلفہ میں جہاں بھی چاہے وقوف کر سکتا ہے۔ وہاں تمام رات جاگنا چاہئے، رات بھر نماز، تلاوت، دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔

10 ویں ذوالحجہ کو طلوع شمس سے پہلے جبکہ سورج نکلنے میں دو رکعت پڑھنے کا وقت رہ جائے تو مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ منیٰ میں رمی کے لئے کنکریاں مزدلفہ سے اٹھا لینی چاہئیں۔ کوشش کریں کہ تقریباً ستر (70) کنکریاں لوبیا کے دانے کے برابر تینوں دنوں کے لئے پاک جگہ سے اٹھا کر تین بار دھو کر اپنے پاس محفوظ کر لیں تاکہ وہاں پریشانی نہ ہو، مزدلفہ سے روانہ ہوتے وقت وادی محسر سے نہ گزریں یہ مزدلفہ سے خارج ہے اگر مجبوراً اس وادی سے گزرنا پڑ جائے تو دوڑ کر گزر جائیں کیونکہ اس وادی میں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔

منیٰ پہنچتے ہی جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے، آج کے دن صرف ایک جمرہ کو رمی کرنا ہوتا ہے۔ اب قربان گاہ کی طرف روانہ ہو اور جانور کی قربانی کرے۔

منیٰ میں جہاں چاہے قربانی کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نَحَرْتُ هٰهُنَا، وَمِنًی کُلُّهَا مَنْحَرٌ.

’’میں نے اس جگہ قربانی کی ہے جبکہ سارا منیٰ قربان گاہ ہے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب ماجاء ان عرفة کلها موقف، 2: 893، رقم: 1218

قربانی سے فارغ ہو کر بال منڈوائے یعنی حلق کروائے اور خواتین بھی قصر یعنی سر کے بال ایک انگلی کی پور کے برابر کتروائے۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إذَا رَمَی أَحَدُکُمْ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَقَدْ حَلَّ لَهُ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَاءَ.

’’جب تم میں سے کوئی جمرۂ عقبہ کو کنکر مارے اور بال اتروالے تو اس کے لئے عورتوں کے سوا ہر چیز حلال ہوگئی ہے۔‘‘

أبو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب فی رمی الجمار، 3: 155، رقم: 1978

اب سر کو کپڑے سے ڈھانپ سکتا ہے اور سلا ہوا لباس بھی پہن سکتا ہے پھر طواف افاضہ یا زیارت کے لئے مکہ کی طرف جو کہ حج کے چار ارکان میں سے ایک رکن ہے باوضو ہو کر مسجد حرام میں داخل ہو اور طواف قدوم کی طرح کا طواف کرے، البتہ اس طواف میں اضطباع اور رمل نہ کرے، سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نفل پڑھے۔ اگر صرف حج کا احرام تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اور پہلے طواف قدوم کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر چکا ہے تو وہی کافی ہے اور اگر حج تمتع کیا ہے تو دو رکعت پڑھنے کے بعد مقام سعی کی طرف بڑھے اور صفا و مروہ کے مابین اسی طرح سعی کرے، جیسا کہ پہلے مفصلًا بیان ہوا ہے۔ سعی سے فارغ ہونے کے بعد اس کا احرام پورے طور پر ختم ہے اور جو کام احرام کی وجہ سے اس کے لئے ناجائز ہوئے تھے اب سب جائز ہوگئے۔

پھر اسی دن منیٰ واپس آجائے اور رات وہیں گزارے۔ گیارہ، بارہ، تیرہ یہ تین راتیں منیٰ میں گزارنا سنت ہے (مزید برآں) ایام تشریق کے پہلے دن 11 ذوالحجہ سورج ڈھلنے کے بعد پہلے جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مارے جو کہ مسجد خیف کے قریب ہے ہر کنکری الگ الگ مارے اور پھر درمیانی جمرہ کی طرف چلے، اس کو بھی اسی طرح سات کنکریاں مارے پھر جمرہ عقبہ جو کہ آخری ہے کی طرف بڑھے۔ اس کو بھی سات کنکریاں مارے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے، لیکن تیسری رمی کے بعد دعا کے لئے کھڑا نہ ہو۔ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پاس دعا نہیں کی تھی۔ دوسرے دن بھی زوال آفتاب کے بعد آئے اور تینوں جمرات کو اسی طرح کنکریاں مارے۔

اگر جلدی ہے تو غروب آفتاب سے پہلے مکہ چلا جائے اگر غروب تک وہاں رہا تو پھر دوسرے دن کنکریاں مارنا واجب ہے اور اگر جلدی نہیں ہے تو رات منیٰ میں رہے اور تیسرے دن زوال آفتاب کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارے اور پھر مکہ مکرمہ آئے اور جب گھر جانے کا ارادہ ہو تو آخری طواف یعنی طواف وداع کرے۔

مگر اس میں نہ رمل ہے نہ سعی اور اضطباع پھر دو رکعت مقام ابراہیم پر پڑھ کر آبِ زم زم پر آئیں اور قبلہ رو ہو کر خوب سیر ہو کر آب زمزم پئیں اور ہر سانس میں نظریں اٹھا کر اللہ کے پیارے گھر کو بھی تکتے رہیں۔ زمزم سے فارغ ہونے کے بعد مقام ملتزم پر آئیں۔ باب کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر بوسہ دیں اور پیکر عجز و انکسار بن کر دعا مانگیں:

’’ تیرے در کا سائل تجھ سے تیرے فضل اور مہربانیوں کا سوال کرتا ہے اور تیری رحمت کی امید کرتا ہے۔‘‘

بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر بجا لائیں جس نے آپ کو زندگی میں حج جیسی سعادت عظمیٰ سے نوازا ہے۔ جب طواف وداع، زمزم اور مقام ابراہیم سے فارغ ہو جائیں تو پھر حجر اسود کو بوسہ دے کر خانہ کعبہ کی جدائی پر زیادہ سے زیادہ حزن و ملال کی کیفیت اپنے دل میں پیدا کرے اور اگر اللہ نصیب فرما دے تو روتے ہوئے دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ ملتزم اور مقام ابراہیم پر دعا اس انداز سے مانگے کہ معلوم نہیں آئندہ ان مقدس مقامات کی زیارت اور اللہ کے حضور ہاتھ پھیلانے کی یہ سعادت مجھے میسر ہوگی یا نہیں۔ یا اللہ! یہ حاضری میری زندگی کی آخری حاضری نہ ہو جب تک میری جان میں جان ہے مجھے بار بار حاضری کی توفیق عطا فرما اور میرا خاتمہ ایمان پر فرما۔ پھر بیت اللہ شریف کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مسجد سے باہر نکلیں واپسی کے وقت اپنے آنے کی اطلاع گھر والوںکو آنے سے قبل دیں گھر میں آکر دو رکعت نوافل پڑھیں پھر اعزا و اقارب، خدام اور دیگر متعلقین سے ملیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ جس نے آپ کو حج جیسی سعادت عظمی سے نوازا کیونکہ حج کی سعادت صرف دولت اور صحت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا حصول صرف اور صرف اللہ کی رحمت پر منحصر ہوتا ہے۔

لہٰذا حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد اب آپ کی زندگی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ اس نئے دور کا نظام العمل اس پاکیزہ زندگی کی روشنی میں مرتب کیجئے جو آپ نے حرمین شریفین میں گزاری اور جس کی تعلیم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دی ہے۔ خصوصیت سے نماز پنجگانہ کی پابندی، حسن اخلاق اور رزق حلال کمانے کا اہتمام اور اپنی روزمرہ زندگی کے معاملات میں وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ کرتے رہیں۔ اس راہ میں استقامت سب سے اہم عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت، ہیبت اور محبت کے باعث گرفتگی اور وارفتگی کے جو لمحات آپ کو دوران حج نصیب ہوئے اُن سے اپنے قلب کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہیں جس کی برکت سے اِن شاء اللہ رفتہ رفتہ آپ کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے حسین قالب میں ڈھل جائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں جہانوں میں فلاحِ کامل نصیب فرمائے (آمین)۔

Share: