سوال : کیا عورت محرم کے بغیر سفر اور حج کر سکتی ہے؟
جواب : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر تنہا طے کرے۔
(طبرانی، المعجم الاوسط، 6 : 267، رقم : 6376)
پرانے وقتوں میں سفر بہت کٹھن اور پُر خطر ہوتے تھے، زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے صرف ہو جاتے تھے۔ اِس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو تنہا تین دن سے زیادہ کا سفر کرنے سے منع فرما دیا تاکہ اُس کی عفت و عصمت کی حفاظت ہو، بلکہ ایک روایت میں تو ’دو دن‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ اِنہی سفری تکالیف اور خطرات کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو تنہا حج کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند یا کسی محرم کے بغیر حج کرے۔‘‘
(ابن خزيمة، الصحيح، 4 :134، رقم : 2522
طبرانی، المعجم الکبير، 8 :261، رقم : 8016)
اِنہی اَحادیث اور اَحکامِ شریعت کی روشنی میں وضع کیے گئے، سعودی عرب کے مروّجہ قوانین کے مطابق کسی عورت کو مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کا ویزا ہی جاری نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا موجودہ دور میں عورت کا مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
البتہ ہمیں اُس عِلّت اور پس منظر کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس کی بنا پر عورت کو مَحرم کے بغیر تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر اور حج کرنے سے منع فرمایا گیا۔ در حقیقت منع کا یہ حکم اِس لیے دیا گیا تھا کہ قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پُرخطرات ہوتے تھے۔ سفر پیدل یا جانوروں پر کیا جاتا تھا اور کئی کئی ہفتے اور مہینے سفر میں صرف ہوتے تھے۔ نیز دورانِ سفر چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اندریں حالات عورت کی عصمت و حفاظت اور سفری تکالیف و خطرات کے پیشِ نظر اسے اکیلے سفر کرنے سے منع فرما دیا گیا۔ مَحرم درحقیقت حفاظت کے لیے ہوتے تھے۔ آج ذرائعِ مواصلات بہت ترقی کرگئے ہیں۔ بے شمار سفری سہولیات و آسانیاں میسر آ چکی ہیں۔ دورانِ سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے اور حج کی ادائیگی کا باقاعدہ نظام ترقی پا چکا ہے۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیے جاتے ہیں جو مَحرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور خواتین کو اُس طرح کے مسائل و خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پرانے وقتوں میں درپیش ہوتے تھے۔ گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی مَحرم بن گئے ہیں، کیونکہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے گروپ میں یا ایک ایسے گروپ میں جہاں مرد و خواتیں اکٹھے ہوں لیکن فیملیز ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اِجتماعیت مَحرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ انِ حالات میں عورت کے لیے مَحرم کے بغیر سفر کرنا ناجائز نہیں رہتا۔ چاہے وہ (تین دن سے زیادہ مسافت کا) عام سفر ہو یا سفرِ حج اور عمرہ۔