ہدایت اور یقین کا باہمی تعلق
اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا:
الٓمّٓ. ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَج فِیْهِج هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ. الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـهُمْ یُنْفِقُوْنَ. وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ. اُولٰٓـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْق وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(البقره، 2: 1 تا 5)
’’الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ (یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔ وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں‘‘۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت یافتہ افراد کے درج ذیل تین طبقات بیان کئے ہیں:
هدی للمتقین
علی هدی من ربهم
المفلحون
یہ تینوں طبقات وہ ہے جنہیں غیب پر یقین رکھنے اور بن دیکھے حقیقتوں پر ایمان لانے کی بدولت اپنے رب کی طرف سے ہدایت عطا ہوتی ہے۔ ایمان تب نصیب ہوتا ہے جب بندہ یقین کامل کے ساتھ زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے۔مگر المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ یقین کے معنی و مفہوم، یقین کی ضرورت و اہمیت اور اس کی برکات سے کلیتاً محروم ہوگئے ہیں۔ درحقیقت زبان سے اقرار کرنا دل کی تصدیق کے اظہار کے لیے ہوتا ہے اور دل تصدیق تب کرتا ہے جب بندہ یقین کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز ہو۔ گویا زندگی کی ابتداء ایمان بالغیب سے ہوتی ہے اور یقین ہی ایمان بالغیب کو پختہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہدایت کے راستے کھلتے ہیں۔ وہ لوگ جو تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے ہدایت حاصل کرتے ہیں قرآن نے انہیں ھدی للمتقین کی صورت میں بیان کیا ہے۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں تقویٰ اختیار کرنے، غیب پر ایمان لانے، نماز ادا کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور آخرت پر ایمان لانے کی بدولت اللہ تعالیٰ ایسی ہدایت عطا فرماتا ہے کہ وہ خود تو ہدایت پر قائم رہتے ہی ہیں مگر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کی ہدایت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ وہ دوسروں میں ہدایت تقسیم کرنے والے بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ ہادی کس طرح بنتے ہیں؟ اس کا انحصار ایمان بالغیب کے اقرار، شک کے خاتمہ اور یقین پر ہے۔
ایمان بالغیب کے ذریعے انسان کی زندگی میں نور کا ایک بیج داخل ہوجاتا ہے۔ ایمان کا یہ بیج خود بخود اگ کر درخت نہیں بن جاتا بلکہ بیج بونے کے بعد اس کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ اس کو زندہ رکھنے کے لیے پانی دینا پڑتا ہے، پھر پروان چڑھانے اور طاقت مہیا کرنے کے لئے کھاد ڈالنی پڑتی ہے۔ افسوس ہماری زندگی کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہم نے کلمہ پڑھ لیا یا کسی کے ساتھ وابستگی کا اقرار کرلیا یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرلیا تو سمجھ بیٹھے کہ یہی کافی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مالی نے بیج بویا، مٹی ڈالی اور چلا گیا اور یہ سمجھتا رہا کہ اب یہ خود اگ کر درخت بن جائے گا حالانکہ محض ایسا کرنا کافی نہیں ہے۔
جب بیج بودیا جائے تو پہلے مرحلہ پر اس کی قوتِ تخلیق کے لیے پانی اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب اگ کر پودا بن جائے تو پھر اس کی مزید نشوونما کے لئے دھوپ اور ہوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان ساری چیزوں کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ پودا جل جاتا ہے۔ جس طرح بیج سے اگنے والے پودے کو پانچ چیزیں پانی، کھاد، گوڈی، روشنی اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کے دل میں بوئے ہوئے ایمان کے بیج سے پیدا ہونے والے اسلام کے پودے کو بھی پانچ چیزیں درکار ہیں جنہیں ارکان اسلام کہتے ہیں۔ ان ہی کی مدد سے ایمان اعتقاد، ایقان اور یقین کے درجہ تک پہنچتا ہے۔
کسی پودے کے نمو کے لیے درکار ان پانچ ارکان کے ہوتے ہوئے بھی اگر مالی نہ ہو تو کام نہیں چلتا۔ اس کے لیے ایک دیکھ بھال کرنے والا بھی چاہئے جو بیج کو یہ پانچ چیزیں بروقت فراہم کرے تب یہ بویا ہوا بیج پودا بنتا ہے اور پھر درخت بن کر پھل کی صورت میں نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت نے ایمان کے بیج کی آبیاری کے لیے یہ سارے سامان فراہم کئے ہیں۔ فرمایا: اگر چاہتے ہو کہ تمہاری زندگی کو قرآن سے ہدایت ملے تو سب سے پہلے اپنے دل میں اُگے ہوئے شک کے درخت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکو۔ جب شک سے دل پاک صاف ہوجائے گا، تب یقین کا پودا اگے گا اور ہدایت نصیب ہوگی۔ گویا ہدایت کی ابتداء یقین ہے اور اس کی انتہاء مرتبہ ایقان ہے۔ فرمایا:
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ.
یعنی اگر تم نے اس لاریب کتاب سے ہدایت لینی ہے تو دل کی کتاب کو بھی لاریب کرنا پڑے گا۔ جس طرح فصل میں اگنے والی زہریلی جڑی بوٹیاں زمین کی طاقت جذب کرکے فصل کو کمزور کرتی ہیں، اسی طرح دل میں جنم لینے والا شک، یقین کو کمزور کردیتا ہے۔ ایمان کی بحث میں اس کو ’’ریب‘‘ کہتے ہیں۔
یہ شک طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ اللہ کے وجود میں شک ہے، یقین نہیں ہے۔۔۔ تقدیر میں شک ہے، مانتے ہیں اقرار کرتے ہیں مگر یقین نہیں ہے۔۔۔ اللہ دے گا مگر اس کے دینے میں شک ہے یعنی ’’یقینا دے گا‘‘ یہ کیفیت نہیں ہے۔۔۔ قلب کو یقین میسر نہیں۔۔۔ موت ہوگی، قبر میں حساب و کتاب ہوگا، آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے زیادہ اہم ہے، ہر کوئی ان عقائد کا اظہار کرتا ہے مگر یقین نہیں ہے۔۔۔ اگر ان تمام کا کامل یقین ہوتا تو ہر کوئی بدل گیا ہوتا اور دنیا کی زندگی پر آخرت کو ترجیح دیتا۔ سودے یہیں بدل جاتے اور دنیا کی لالچ میں مبتلا کرنے والے سودے بیچ کر نئے سودے کرلئے ہوتے مگر ہماری اکثریت کی زندگی دھوکہ بازی پر چل رہی ہے اس لیے کہ ہمارے یہ سودے اللہ سے پکے اور سچے نہیں ہورہے۔ ہم نے زندگی میں دل کی زمین میں موجود شک کی بوٹیوں کو جڑوں سے نکال کر پھینکا ہی نہیں ہے۔
اللہ رب العزت فرمارہا ہے کہ قرآن بھی تمہاری طرف نازل کر دیا ہے، ہدایت بھی اس میں رکھ دی ہے مگر ہدایت کے نصیب ہونے کی شرطِ اولین یہ ہے کہ ریب و شک کی بوٹیاں دل کی زمین سے اکھاڑ پھینکو اور دل کی زمین کو پاک اور صاف کردو۔ اس لیے کہ تمہارے دل کی طاقت تو تمہارے شک کو پالنے میں لگی رہتی ہے اور اس میں سو قسم کے شک پلتے رہتے ہیں۔ اب حالت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ شک کے پودے پل پل کر اتنے بڑے ہوچکے ہیں کہ اب تو وہ قابو میں بھی نہیں ہیں۔ ہم انہیں قابو میں کرنے کے لئے اوپر سے کاٹ دیتے ہیں جبکہ دل میں شک کی جڑیں دور دور تک پھیل چکی ہوتی ہیں۔ اوپر سے کاٹنے کے بعد جب کچھ نظر نہیںآرہا ہوتا تو ہم مطمئن ہوجاتے ہیں کہ دل میں موجود تمام شکوک کی جڑی بوٹیاں کاٹ دی ہیں، مگر یہ خبر ہی نہیں کہ دور دور تک اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں اور چند دنوں کے بعد وہ پھر سر نکال لیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت تزکیہ کی ہے، تزکیہ کا مطلب شک کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہدایت لینی ہے تو دل کے اندر شک کی کوئی جڑ ہی نہ رہے، تمام شک نکال پھینکو گے تب ہدایت ملے گی اور ایمان نصیب ہوگا۔
ایمان ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جن کی ہدایت کا اللہ ارادہ فرمالیتا ہے اور ہدایت ان کو نصیب ہوتی ہے جو اپنے آپ کو شک کی دلدل سے نکالتے ہیں۔ دل کی زمیں میں یقین کی اونچی اونچی بوٹیاں موجود ہیں جبکہ یقین، ایمان اور عقائد صحیحہ چھوٹے چھوٹے نوخیز پودوں کی طرح موجود ہیں، شک کے بڑے بڑے پودے ان پر سایہ کئے کھڑے ہیں، جن کی وجہ سے ان ننھے ننھے پودوں کا نمو پانے کا راستہ ہی صاف نہیں ہورہا۔
جب دل کو صاف پاک کردیا جائے تو تب ہدایت نصیب ہوتی ہے اور یہ ہدایت ایمان تک پہنچاتی ہے۔ دل کی زمین سے شک کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد اب اس ایمان کے بیج کو پانی، کھاد، ہوا اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایمان کے پودے کو یہ تمام چیزیں کیونکر مہیا ہوں گی؟ فرمایا:
وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـهُمْ یُنْفِقُوْنَ.
ایمان کے پودے کے لیے پانی بصورتِ نماز۔۔۔ عبادات بصورتِ کھاد۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا بصورتِ ’’ہوا‘‘ ہے۔ گویا عملِ صلوٰۃ پانی بن گیا، عبادت کھاد بن گئی اور دل کی زمین شک سے پاک ہوگئی تو ان تمام عوامل کے ذریعے ایمان کے پودے کو زندگی اور توانائی مل گئی۔ پھر فرمایا: وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ. ان تمام تعلیمات الہٰیہ کے ذریعے ایمان کے پودے کو روشنی میسر آگئی اور اس طرح اس کے نمو کا سارا سامان مہیا ہوگیا۔ اِن تمام مراحل کے بعد جاکر آخرت کا یقین پیدا ہوا۔ شک کے رفع کرنے سے سفر شروع ہوا تھا۔ شک نکالا تو یقین کی ابتداء ہوئی، پھر سارے تقاضے پورے کئے تو مرتبہ ایقان تک جاپہنچے اور ایقان کو جب کمال نصیب ہوا تو اس شخص کے لئے اللہ نے خوشخبری سنائی:
اُولٰٓـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْق وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
ایک ہدایت وہ ہے جس کا ذکر اللہ نے شروع میں ھدی للمتقین کے ذریعے کردیا تھا اور دوسری ہدایت کا ذکر علی ھدی من ربہم کے الفاظ کے ذریعے کیا۔ ان دو ہدایتوں میں فرق ہے۔
هدی للمتقین فرماکر اللہ تعالیٰ نے ایک اعلان فرمادیا تھا کہ جو شخص جتنا پرہیزگار ہوگا، اتنی ہدایت اس کا نصیب ہے، اب اس کی محنت و ریاضت اور تگ و دو پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے کتنی ہدایت سمیٹتا ہے۔ بعد ازاں انسان جب نماز، انفاق اور تعلیمات پر عمل کے ذریعے ایمان کے کمال تک جاپہنچا اور اُسے یقین حاصل ہوگیا تو فرمایا:
اُولٰٓـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ.
یعنی کمالِ یقین پالینے والے اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر فائز ہوگئے۔ پہلے صرف ایک اعلان تھا کہ ہدایت کا خزانہ انہیں ملے گا جو متقی و پرہیزگار ہیں مگر مل جانے کی ضمانت نہ تھی۔ بعد ازاں یومنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنہم ینفقون۔۔۔ کے ذریعے سارا راستہ بیان کردیا، شرطیں بیان کردیں، تقاضے بیان کردیئے کہ جب ساری وادی عبورکرلو گے اور یقین کو مرتبہ ایقان تک پہنچادو گے تو اب ان کو اللہ نے خوشخبری سنائی کہ اب چونکہ ان لوگوں کا آخرت پر یقین جم گیا ہے اور انہوں نے دنیا کے بدلے آخرت خریدلی ہے لہذا اولئک علی ھدی من ربہم۔ یقین کے کمال کو پالینے والے اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر فائزہوگئے۔
وبالآخرۃ ھم یوقنون کا معنی یہ ہے کہ جس نے آخرت کے لئے دنیا بیچی۔ افسوس ہمارا آخرت پر یقین نہیں ہے۔ ہم نے دنیا کو آخرت کے بدلے بیچنے کی بجائے آخرت پر دنیا کو ترجیح دے رکھی ہے۔ جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے ہمارے پیشِ نظر دنیا اور دنیا کا مفاد ہوتا ہے، برادری، رشتہ دار اور نام و نمود ہوتی ہے، دنیا کے حرص ہیں، دنیا کے لالچ ہیں، یہ سب دنیا کے پیمانے ہیں، ہمارا تو سارا جینا مرنا دنیا ہے۔
اگر ہم میں تبدیلی نہیں آئی تو ہم اللہ کے ساتھ کتنا بڑا دھوکہ کررہے ہیں۔ آخرت پر اگر یقین ہوگیا ہوتا تو دنیا بیچ چکے ہوتے۔ اگر دنیا، آخرت پر وار دی ہوتی تو ہماری زندگی کے طور طریقے ہی بدل گئے ہوتے۔۔۔ ہماری دنیا کی زندگی بدل گئی ہوتی۔۔۔ ہماری ترجیحات بدل گئی ہوتیں۔۔۔ پسند اور ناپسند کے سارے پیمانے بدل گئے ہوتے۔۔۔ جب کوئی معاملہ آتا ہے تو سب سے پہلے ہم دنیاکو سامنے رکھ کر سوچتے ہیں۔۔۔ جو دنیا کے پیمانوں پر سوچتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے وبالآخرۃ ھم یوقنون کی وادی میں قدم نہیں رکھا۔ ہم دنیا کو سامنے رکھتے ہیں، نفس کو سامنے رکھتے ہیں، ہمارے تو اپنے گورکھ دھندے ہی ختم نہیں ہوتے۔ دنیا کا گورکھ دھندہ اور جنجال ہی سب سے بڑا دجال ہے۔ ایک دجال تو وہ ہے جو قربِ قیامت آئے گا اور گمراہ کرے گا، کبھی ہم نے سوچا کہ ہم نے کئی دجال اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ یہ نفس، حرص دنیا، حسد و بغض، عناد و غرور، ہر ایک کے ساتھ دنگا فساد، غیبتیں اور چغلیاں یہ سارا کچھ ایک دجال ہی ہے۔ جب تک دنیا کے جنجال کو لات نہیں مارتے اور اس سے نہیں نکلتے، اس وقت تک ہم وبالآخرۃ ہم یوقنون کی وادی میں داخل نہیں ہوسکتے۔ جب آخرت اور آخرت میں جو کچھ ہونا ہے، اس کے ہونے کا یقین اپنے کمال کو پہنچ جائے تو اس کمال کو ایقان کہتے ہیں۔ جب یہ حالتِ ایقان نصیب ہوجائے تو اس کی ادنیٰ علامت یہ ہے کہ بندہ آخرت کے بدلے دنیا کا سودا کرلیتا ہے مگر افسوس کہ ہم آخرت کے سوداگر ہی نہیں رہے۔
آخرت کا سودا کرلینے کا مطلب ہے زندگی بدل گئی، زندگی کا رنگ بدل گیا، ڈھنگ بدل گیا، سوچ بدل گئی، ترجیح بدل گئی، سارا کچھ بدل گیا۔ افسوس ہمارا تو کچھ بھی نہیں بدلا، ہم تو دھوکہ کرتے ہیں اور نفس کے جنجال میں دھنسے ہوئے ہیں۔
اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جب آخرت کے یقین کو کمال تک پہنچالو گے تب تم ہدایت پر فائز کردیئے جائو گے۔
ھدی للمتقین کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دوزخ سے بچ گیا، راہ راست پر گامزن ہوگیا اور اس کو ہدایت مل گئی۔ جس کو ہدایت مل گئی اس کا اپنا کام ہوگیا جن کے لیے اس ہدایت کا ذکر کیا وہ صرف اپنے لیے ہیں۔
پس ھدی للمتقین جن کو ہدایت مل گئی ان کا اپنا آپ سنور گیا، وہ گناہ اور خطا کی وادی سے نکل آئے، اوسط درجے میں آگئے، کنارے لگ گئے، بخشش والے ہوگئے، وہ جیت گئے، ان پر عنایتیں ہوگئیں مگر یہ جتوانے کے قابل نہیں بنے۔ کھلاڑی بن گئے مگر ابھی کیپٹن نہیں بنے جبکہ بعض لوگ وہ ہیں جن کے لئے فرمایا:
اُولٰٓـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے ساری منزلیں طے کرلیں اور وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ تک جاپہنچے، دنیا کو لات ماردی، اب وہ دنیا کے بندے نہ رہے بلکہ آخرت کے بندے ہوگئے۔ جب انہوں نے ایمان کی شرائط اور تقاضے پورے کیے اور دنیا کے بدلے آخرت خرید لی تو اب وہ نہ صرف خود ہدایت یافتہ ہوگئے بلکہ اوروں کے ہادی بن گئے۔ اب جو ان کی کشتی میں بیٹھ جائے گا، اس کو بھی کنارے لگادیں گے۔
پہلے ھدی للمتقین تھے اب علی ھدی من ربہم کے مصداق ہوگئے، یعنی ہدایت پر فائز اور متمکن کردیئے گئے۔ جب کوئی کسی شے کے اوپر متمکن ہوتا ہے تو اس کے تصرف میں خصوصی رحمت دے دی جاتی ہے۔ پہلے آدمی ہدایت لیتا تھا، اب جس کو چاہتا ہے ہدایت بانٹتا ہے۔ پہلے آدمی ہدایت کا خریدار تھا، ہدایت اپنے لیے خریدتا تھا مگر اب ہدایت دیتا پھرتا ہے۔
مختصر یہ کہ پہلا درجہ ھدی للمتقین، متقین کے لئے ہدایت ہے جتنی ہدایت چاہیں لے لیں، اپنے جوگے ہوگئے۔ دوسرا درجہ علی ھدی من ربہم کے مصداق دنیا کو ہدایت دینے والے ہوگئے۔ یعنی لینے کے بعد آگے دینے والے بن گئے۔ جو ان کے دامن سے لپٹ جائے گا اس کو بھی ہدایت کی خیرات مل جائے گی۔
ایک تیسرا درجہ بھی اللہ رب العزت نے بیان فرمایا کہ واولئک هم المفلحون یہ نہیں فرمایا اولئک علی هدی من ربهم و هم المفلحون بلکہ اولئک دہرا کر کہا واولئک ھم المفلحون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پر متمکن ہونے کے بعد فلاح پاگئے اور جو فلاح پاگئے وہ اہل اللہ ہوگئے۔
جو ہدایت کے اوپر متمکن تھے وہ اہلِ اَقرب تھے اور جو اصلاً اولیاء اللہ ہوگئے وہ اولئک ھم المفلحون ہوگئے۔ ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح کے چشمے دے دیئے۔ فلاح کے چشمے جن کے ہاتھ میں دیئے وہ لقاء والے ہوگئے، وہ اللہ سے ملاقات کرنے والے ہوگئے، وہ آخرت کے بھی طلبگار نہ رہے بلکہ صرف اور صرف مولیٰ کے دیدار کے متمنی بن گئے۔یہ اللہ کو پاگئے۔ دوسرے درجے والوں کو نعمت ملی تھی تیسرے درجے والوں کو اللہ مل گیا۔ وہ نعمت والے تھے اور یہ نعیم والے ہوگئے۔ جن کو اللہ مل جاتا ہے تو سارا کچھ ان کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔
محترم قارئین! ہمارا تو یہ راستہ ہے اور یہی سودا ہے۔ اس سودے کے سوداگر بنیں، اس راستے پر چلیں، ان منزلوں کو عبور کریں، اللہ تبارک وتعالیٰ سب کا حال بہتر کردے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر کی راہ پر گامزن کردے اور ہمارے لیے اپنی نعمتیں عام فرمادے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم