خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
aفرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق تمام صحابہ کرام عادل، ستاروں کی مانند ہیں اور اہل زمین کے لیے باعثِ اَمان و نجات ہیں۔ مگر جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خلفاءِ راشدین کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ مقام و مرتبہ ہی ان نفوسِ قدسیہ کی اِیمانی فضیلت اور ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر معمولی وابستگی کی دلیل ہے۔ ان خلفاءِ راشدین نے اپنے اِحساسِ ذمہ داری، فلاح و بہبود عامہ، تبلیغ اسلام اور انتہائی کٹھن وقت میں اپنے صبر و استقامت کی بدولت یہ ثابت کردیا کہ ان کا اِنتخاب حق اور شوکت و غلبۂ دین کا باعث تھا۔
ان میں سے ہر ایک کی شخصیت آسمان رشد و ہدایت پر جگمگاتے ہوئے ستاروں کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ خلیفۂ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اَوصافِ حمیدہ کا یہ عالم کہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’اپنی جان و مال (قربان کرنے) کے اعتبار سے ابو بکر بن ابی قحافہ سے بڑھ کر مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘ خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں کہ جن کی موافقت میں وحی الٰہی نازل ہوتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی ذو النورین رضی اللہ عنہ کی عظمت کا یہ عالم کہ انہوں نے بارہا زبانِ نبوت سے جنت کی نوید پائی اور جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’میری اُمت میں سب سے زیادہ حیادار عثمان بن عفان ہے۔‘ خلیفہ چہارم مولائے کائنات حضرت علی کرّم اﷲ وجہہ الکریم کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘ اور جن کی امامت و ولایت کا اِنکار اِعلان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے۔
دور حاضر میں مادیت و جہالت اور فرقہ پرستی کی تاریکیاں ایمان و یقین کے اجالوں کو نگلنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایسے دورِ پُر آشوب میں ’خلفائے راشدین‘ کی حیثیت ایک شمع ہدایت کی ہے کہ جس سے مادیت زدہ دلوں کو شوکت ایمان کے اجالے عطا ہوں گے اور انسانیت کو صبر و برداشت کا مادہ اور امن و آشتی کا پیغام ملے گا۔ ان ہستیوں نے درس گاہِ نبوت سے علم و حکمت کی اس طرح خوشہ چینی کی کہ ان کی بوریا نشینی شاہانِ عالَم کے تختِ زر نگار کے لیے قابلِ رشک بن گئی۔ یہ وہ مقبولانِ بارگاہِ نبوت ہیں کہ جن کی بزرگی و فضیلت کا اعتراف صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اَغیار بھی نہایت عزت و توقیر سے کرتے ہیں۔ مگر عصر حاضر کے بعض کوتاہ بین اور کج فکر لوگ ایسے بھی ہیں جو عقل و دانش کا لبادہ اوڑھ کر انہیں تضحیک و توہین کا نشانہ بنانا اپنے علم و فن کا کمال سمجھتے ہیں۔
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ عہدِ حاضر کے مسلمانوں کے ذہن و فکر میں عظمت اَسلاف اور بالخصوص خلفائے راشدین کی یاد تازہ کی جائے ان کے اسلام پر کیے گئے احسانات کا تذکرہ کیا جائے اور ان کے فضائل و مناقب کے بیان سے دلوں کی سختی کو نرمی میں بدلا جائے۔