سوال نمبر 88 : تصوف سے کیا مراد ہے؟

547
0
Share:

جواب : تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂِ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔

تصوف صرف روحانی، باطنی کیفیات اور روحانی اقدار و اطوار کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ علمی، فکری، عملی، معاشرتی اور تہذیبی و عمرانی تمام جہتوں میں اخلاص و احسان کا نام تصوف ہے۔

ائمہ تصوف نے اپنے تمام معتقدات، تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت کو ٹھہرایا ہے حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں۔

’’راہِ تصوف صرف وہی پاسکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن حکیم اور بائیں ہاتھ میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے۔‘‘

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں شیخ خضری کا یہ قول نقل کیا ہے :

التصوف صفاء السر من کدورة المخالفة.

’’باطن کو مخالفت حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک و صاف کردینے کا نام تصوف ہے۔‘‘

Share: