سوال:اہل سنت کے امتیازی اعتقادات کیا ہیں؟ جو اسے دیگر مسالک سے ممتاز کرتے ہیں؟

Share:

جواب: اہلسنت و الجماعت ان عقائد کو جو ضروریات دین ہیں‘ قرآن و سنت کی قطعی الثبوت و قطعی الدلالت نصوص سے مستنبط کرتے ہیں۔ان عقائد میں کسی مجتہد کی رائے، اجتہاد یا قیاس کو دخل نہیں کیونکہ اساسی عقائد قیاسی یا اجتہادی نہیں ہوتے بلکہ منصوص ہوتے ہیں۔ اہلسنت کے اعتقاد جو ان کو دیگر اعتقادی مذاہب سے جدا کرتے ہیں‘ درج ذیل ہیں:

عقائد اسلامیہ کے مصادر و مراجع تین ہیں:
کتاب اللہ
سنت رسول اللہ
اجماع
(الفرق بین الفرق: 287)

احکام شرعیہ کے مصادر و مراجع چار ہیں:
کتاب اللہ
سنت رسول اللہ
اجماع امت
قیاس
(اصول الشاشی: 50)

ماسوی اللہ، عالَم ہے اور عالَم فانی ہے، عالَم، اللہ کی مخلوق ہے، اور اس عالَم کا صانع اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ؛ مخلوق، مصنوع یا عالَم کی کسی جنس سے نہیں ہے۔
ملائکہ اور جن و شیاطین عالَمِ حیوانات کی جنس سے مستقل مخلوقات ہیں اور ان کا وجود ہے، اس کا منکر گمراہ ہے۔
آسمان اور زمین کے سات سات طبقے ہیں۔
عالَم کا فنا ہو جانا بطریقِ قدرت و امکان جائز ہے۔
جنت و جہنم ابدی ہیں۔ جنت و دوزخ مخلوق ہیں اور جنت کی نعمتیں اہلِ جنت پر ہمیشہ رہے گی، اور دوزخ کا عذاب مشرکین، منافقین و کافرین پر ہمیشہ رہے گا۔
تمام حوادث کے لے محدث (وجود میں آنا) ہونا اور صانع کا ہونا ضروری ہے، وہی اعراض کا بھی خالق ہے اور اجسام کا بھی صانع۔ وہ ازلی و ابدی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بے نیاز ہے، نہ اس کی اولاد ہے نہ بیوی۔ اس پر فنا نہیں، اس کو صورت اور اعضاء سے متصف کرنا محال ہے۔ اللہ کو نہ کوئی مکان گھیرے ہوئے ہے اور نہ زمان۔ اللہ پر آفات، رنج و غم، آلام و لذات طاری نہیں ہوتیں۔ حرکت وسکون کا اللہ تعالی سے صدور نہیں۔ اللہ اپنی مخلوق سے کسی قسم کا نفع نہیں حاصل کرتا اور نہ مخلوق کی مدد کا محتاج ہے۔اللہ ایک ہی ہے۔ نہ اس کے مثل کوئی ہے اور نہ اس کے برابر کوئی ہے۔
اللہ کا علم، قدرت، حیات، ارادہ، سمع، بصر،کلام، سب ازلی ہے۔ اللہ کی تمام مخلوقات پر قدرت واحدہ ہے، اللہ کو اختراع کے طریقہ پر قدرت حاصل ہے نہ کہ اکتساب کے طریقہ پر۔ اللہ کا علم واحد یعنی ایک ہے اور اس سے وہ تمام معلومات کو تفصیل سے جانتا ہے اور اللہ کو علم حسِ بدیہہ اور استد لال سے حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ سمع و بصر تمام مسموعات و مرئیات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ وہ ازل سے اپنے نفس کو دیکھنے والا اور نفس کے کلام کا سننے والا ہے۔
آخرت میں مؤمنین اللہ تعالیٰ کو اس کی شان کے مطابق دیکھیں گے اور وجودِ حق کی زیارت کریں گے۔
اللہ کا ارادہ اس کی مشیت و اختیار سے عبارت ہے۔ اللہ کا ارادہ اس کی تمام مرادات میں ان سے متعلق اس کے علم کے مطابق نافذ و جاری ہوتا ہے۔ عالم میں چھوٹی بڑی کوئی بھی چیز اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتی جب تک اللہ کا ارادہ اس کے وجود میں لانے کا نہ ہو۔ اللہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہوتا ہے اور اللہ جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہو تا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ جو چاہے اس پر راضی بھی ہو۔ اللہ کی رضا اور اللہ کا ارادہ دونوں الگ الگ ہے۔
اللہ کی حیات بلا روح اور بلا کسی غذا کے ہے۔
تمام ارواح مخلوق ہیں۔
اللہ کا کلام صفتِ ازلی ہے، غیر مخلوق اور غیر حادث ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء و اوصاف توفیقی ہیں‘ وہی اسماء و اوصاف اللہ پر بولے جائیں جو قرآن یا احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں۔ سنتِ صحیحہ کے رو سے اسمائِ حسنیٰ ننانوے ہیں، جس نے اس کا احصاء (معنی و مطالب پر اعتقاد رکھتے ہوے اسے یاد کر لیا) کر لیا وہ جنت میں داخل ہو جا ئے گا۔
اسماء حسنی کی تین قسمیں ہیں:
وہ اسماء جو اللہ کی ذاتِ اقدس پر دلالت کریں، مثلاً: واحد، اول، آخر، جلیل وغیرہ۔
وہ اسماء جو صفاتِ ازلیہ پر دلالت کریں، مثلاً: حی، قادر، عالم، مرید، سمیع، بصیر وغیرہ۔
وہ اسماء و صفاتِ جو اللہ کے افعال سے مشتق ہوں، مثلاً: خالق، رازق، عادل وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ اجسام و اعراض اور ان کے خیر و شر کا خالق ہے، وہ بندوں کے اکتساب کا بھی خالق ہے، اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی خالق نہیں ہے۔ بندہ اپنے عمل کا مکتسب ہے اور اللہ اس کے کسب کا خالق ہے۔
اللہ تعالی کی جانب سے ہدایت دو وجوہ سے ہوتی ہے:
اول وہ ہدایت جو حق کے وضوح اور اس کی ابانت سے ہے، وہ اس کی جانب بلانے سے اور اس پر دلائل کے قیام سے حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ کی بناء پر ہدایت کی نسبت رسولوں اور اللہ عزوجل کے دین کی طرف بلانے والے ہر داعی کی جانب کی جاسکتی ہے۔

ہدایت کی دوسری صورت یہ ہے کہ بندوں کے قلوب میں براہِ راست قدم زنی کی خواہش پیدا کر دی جائے۔ اس نوع کی ہدایت پر اللہ تعالی کے سوا کو ئی اور قادر نہیں ہے۔

اللہ تعالی کی جانب سے پہلی ہدایت تمام مکلفین کو شامل ہے اور دوسری ہدایت خواص مجتہدین کے لئے ہے۔ اس کی تحقیق کی غرض سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھاراستہ دکھاتا ہے۔ اللہ تعالی جس شخص کو گمراہ کرتا ہے عدل کی بناء پر کرتا ہے اور جسے وہ ہدایت دیتا ہے اپنے فضل (مہربانی) سے دیتا ہے۔

آ جال (اجل، موت، مرگ، مدت ، وقت) طبعی موت یا قتل سے مرا وہ اجل ہے جو اللہ تعالی نے اس کی زندگی کے لئے مقرر کی ہے۔ اللہ تعالی آدمی کو زندہ رکھنے اور اس کی عمر میں اضافہ کرنے پر قادر ہے۔
اگر اللہ بندوں کو کسی چیز کا مکلف نہ کرتا تو اس کا عدل ہوتا، تکلیف میں کمی زیادتی بھی اللہ کے لیے روا ہے، اللہ مخلوق کو پیدا نہ کرتا تب بھی حکیم ہوتا۔ اگر اللہ بندوں کو جنت میں پیدا کرتا تو اس کا فضل ہوتا۔ اللہ آمر، ناہی اور حاکم مطلق ہے۔
مخلوق کی جانب انبیاء و رُسل کا بھیجنا اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ نبوت و رسالت وہبی ہے کسبی نہیں۔
ہر وہ شخص جس پر اللہ کی جانب سے کسی فرشتہ کے توسط سے وحی نازل ہوتی ہے اور ایسے معجزات کے ذریعہ جو خرق عادت ہوں اللہ تعالی نے اسے تائید عطاء فرمائی ہو وہ نبی ہے اور جس شخص کو یہ تمام باتیں عطاء کی گئی ہوں اور ان کے ساتھ ساتھ اسے نئی شریعت دی گئی ہو یا پہلے سے موجود شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرنے کا حکم دیا گیا ہو، وہ رسول ہے۔
انبیاء کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ان میں سے رسول صرف 313 ہیں۔ اول الرسل تمام انسانوں کے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آخری رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہر مدعی نبوت کی تکفیر کی جائے گی۔
نبی کے لئے ایک معجزہ لانا ضروری ہے، جو اس کے دعوی نبوت کی سچائی کی دلیل ہو۔ سو جب ایک معجزہ ظاہر ہو جائے کہ نبی کی صداقت کی دلیل ہو اور لوگ اس جیسا معجزہ لانے سے عاجز ہوں تو لوگوں پر اس نبی کی تصدیق کی حجت واجب ہو جائے گی اور اس کی اطاعت ان پر لازم ٹھہرے گی۔ اگر اس کے بعد بھی اس معجزہ کے علاوہ لوگ کسی اور معجزہ کا مطالبہ کریں تو اللہ عز وجل پر منحصر ہے، اگر اس کی مشیت ہوئی تو اس دوسرے معجزہ سے وہ نبی کو قوی دست کرے گا اور اگر اس کا ارادہ ہو گا تو اس دوسرے معجزہ کے طلب کرنے والوں کی گرفت کرے گا اور انہیں اس جرم کی سزادے گا کہ اس نبی کی سچائی کی جو دلیل ظاہر ہو گئی ہے اس پر وہ ایمان نہ لائے۔
اولیاء اللہ سے کرامات کا ظہور جائز ہے۔ یہ کرامات ان کے احوال کی سچائی کی دلیل ہوتی ہیں۔ صاحبِ معجزہ (نبی ورسول)پر معجزہ کو ظاہر کرنا اور اس سے مخالفوں سے معارضہ و تحدی کرنا ہے جبکہ صاحبِ کرامت (ولی) اپنی کرامت سے کسی کی تحدی نہیں کرتا، بلکہ اکثر اسے لوگوں سے پوشیدہ رکھتا ہے۔ اسی طرح صاحب المعجزہ کا انجام اور عاقبت مامون و محفوظ ہوتی ہے، صاحبِ کرامت اپنے انجام کے متغیر ہو جانے سے محفوظ نہیں ہوتا۔
قرآن کریم ایک معجزہ ہے اور یہ معجزہ ’نظم قرآن ‘ (اسلوب، انداز، ترتیب )ہے۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے معجزہ شق القمر، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں کنکریوں کا اللہ تعالی کی پاکی بیان کرنا، تھوڑے کھانے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہت سے لوگوں کو سیر کرنا شامل ہے اور اس جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات بکثرت ہیں۔
اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے۔ یہ گواہی کہ اللہ تعا لی کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں، قیام صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃ، صومِ رمضان اور حج بیت الحرام۔ ان ارکان کاسقوط و تاویل کفر ہے۔ جس کسی نے ان پانچ ارکان میں سے کسی رکن کے وجوب کو سا قط کر دیا، کسی قوم کی دوستی اور ان کی موالات کے معانی پر ان کی تاویل کی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
صلوٰۃ مفروضہ پانچ وقت کی ہیں۔ جس نے بھی ان میں کسی کو ساقط کیا وہ کافر ہے۔ صلوٰۃ جمعہ کا منعقد کرنا واجب ہے۔
اعیان میں سے سونے، چاندی، اونٹ، گائے، بیل (بھینس) اور بھیڑ، بکری میں زکوٰۃ واجب ہے، ان جانوروں کا چرنے والا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ غذائی اجناس میں، جن کو لوگ کاشت کرتے ہیں اور انہیں غذا کے کے طور پر استعمال کرتے ہیں واجب ہے۔ کھجور اور انگور کے پھلوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔
صوم رمضان واجب ہے اور اوقات صیام میں اس کے توڑنے کو کسی عذر کے بغیر یا صغر سنی یا دیوانگی یا بیماری یا سفر یا ایسی دوسری مجبوریوں کے علاوہ‘ حرام ہے۔ماہِ رمضان کا اعتبار ہلال رمضان کی رؤیت سے یا ماہ شعبان کے تیس دن پورے ہو جانے پر ہوگا۔
زندگی میں ایک مرتبہ اس آدمی پر حج فرض ہے جس میں مکہ تک جانے کی استطاعت ہو۔ حج کو ساقط کرنا کفر ہے، البتہ عمرہ کا وجوب ساقط کرنے سے کفر مستلزم نہیں ہوتا کیونکہ وجوبِ عمرہ کے بارے میں امت میں اختلاف رائے ہے۔
صلوٰۃ کے صحیح ہونے کے لئے حسب امکان طہارت، سترِ عورت، وقتِ مقررہ اور قبلہ کی جانب منہ کرنا شرائط ہیں۔
اعدائے اسلام کے خلاف جہاد لازم ہے۔
بیع (خرید و فروخت) جائز و حلال ہے مگر ربائ، سود حرام ہے، جو رباء کو مجملا ً بھی مباح سمجھتا ہو وہ گمراہ ہے۔
شرمگاہ نکاحِ صحیح یا مِلکِ یمین کے سوا مباح نہیں ہے۔
زنا، سرقہ، شراب خواری اور قذف (بہتان طرازی) میں حد شرعی جاری کرنا واجب ہے۔
مکلفین کے افعال کی پانچ اقسام ہیں: واجب، محظور، مسنون، مکروہ اور مباح۔ لیکن بہائم، اطفال اور مجانین (مجنون، پاگل ) کے افعال کا اباحت، وجوب اور خطرے سے کوئی واسطہ نہیں اور انہیں کسی حال میں ان سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔
مکلفین پر معر فت، قو ل یا فعل سے متعلق تمام وہ امور جو واجب ہو تے ہیں، وہ ان پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے واجب ہوتے ہیں اور ہر وہ امر جس کا کرنا مکلفین کے لئے ممنوع ہے، ایسا اللہ تعالی کی ممانعت کے باعث ہوتا ہے۔ اگر بندوں پر اللہ تعالی کی جانب سے امر و نہی کا حکم وارد نہ ہوتا، تو ان پر کچھ بھی واجب نہ ہو تا اور نہ ان پر کو ئی چیز حرام ہی ہوتی۔
اہل سنت کے نزدیک سوال منکر نکیر اور عذاب قبر بر حق ہے۔
حوض کوثر، صراط یعنی پل صراط، میزان یعنی وزنِ اعمال کا برپا ہونا حق ہے اور اس کا منکر گمراہ ہے۔
قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کے علماء و صلحاء گناہگار مسلمانوں کی شفاعت کریں گے۔
مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کا قیام اور امام کا تقرر واجب ہے، اس کی بنیاد شورائیت، عدالت اور علم ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ برحق ہیں اور آپ صحابہ میں سب سے افضل ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم امام بر حق ہیں اور جنگ جمل، جنگ صفین و نہروان میں آپ بر سرِ صواب تھے۔ آپ کے دیگر مخالفین اجتہاد ی غلطی پر تھے، البتہ نہروان میں خوارج صریح غلطی و بطلان پر تھے۔
تمام صحابہ عادل ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی تکفیر یا فاسق و فاجر ہونے کا خیال گمراہی ہے۔ صحابہ کرام میں ’عشرہ مبشرہ‘ یقینی طور پر جنتی ہیں۔ تمام ازواج مطہرات کی موالات لازم ہے۔ اسی طرح آلِ رسول سے موالات ضروری ہے۔
کسی مسلمان کا قتل صرف تین حالتوں میں جائز ہے: مرتد، شادی شدہ زانی، بیگناہ کا قاتل
ملائکہ گناہوں سے معصوم ہیں۔
احادیثِ صحیحہ کی رو سے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ستر ہزار (70000)اشخاص کسی حساب کتاب کے بغیر بخش دیئے جائیں گے اور جنت میں داخل کر لئے جائیں گے۔ ان میں سے ہر ایک شخص سترہزار اہلِ ایمان کی شفاعت کرے گا۔ اس گروہ میں حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ بھی داخل ہیں۔
بت پرست کسی خاص انسان کے پرستار، ہر حسین و جمیل چیز کے پجاری، چاند سورج کی عبادت کرنے والے، ستاروں کی پرستش کر نے والے، ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہنے والے، شیطان کے پجاری، گاؤ ماتا کی پوجا کرنے والے، آگ کی عبادت کرنے والے؛ یہ سب کفار مشرکین ہیں۔ مسلمان کے لیے ان کے ذبیحے، ان کی عورتوں سے نکاح اور عبادات و ریاضات میں ان کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
اہل کتاب یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے۔
خواہش نفسانی کے پیرو کار اسلام کی جانب اپنے انتساب کے باوجود گمراہ اور بد عقیدہ ہیں۔
اہل السنت آپس میں ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے۔ ان کے درمیان ایسے اختلافات نہیں ہیں جن سے برأت اور تکفیر لازم آتی ہو۔ یہ اس جماعت سے وابستہ ہیں جو حق کے ساتھ قائم ہے اور اللہ تعالی حق اور اہل حق کی حفاظت کرتا ہے۔اسی لئے یہ لوگ ایک دوسرے کوبرے الفاظ سے یاد نہیں کرتے اور نہ ایک دوسرے کا توڑ کرتے ہیں۔

Share: