سوال: کیا سیدنا امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد ریاست کے خلاف بغاوت تھی؟

Share:

جواب: سیدنا امام حسین علیہ السلام نے ایک شرابی، زانی، ظالم، جابر، سفاک اور درندہ صفت حکمران یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا، یعنی اس کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے برائی کے کاموں میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن یزید چاہتا تھا کہ اگر نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری بیعت کر لیں تو باقی بہت سے لوگ بھی مجھے حکمران مان لیں گے، یعنی ووٹ دے دیں گے۔ لیکن سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اس کے غلط طرز زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے صاف انکار کر دیا اور یزید کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کو کہا۔ یزید جھوٹا اور مکار ہونے کی وجہ سے خود تو سامنے نہ آیا لیکن زبردستی بیعت کروانے کا منصوبہ بنا لیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی فیملی سمیت مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ انہیں ڈر تھا کہ مدینہ پاک میں کہیں خون نہ بہے۔ دوسری طرف اس دوران کوفہ والوں نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی کہ ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ لیکن آپ علیہ السلام ابھی مکہ میں تھے کہ حج کا مہینہ شروع ہو گیا۔ آٹھ ذوالحجہ کو پھر امام عالی مقام نے سوچا کہ یہاں بھی مسلمانوں کا اجتماع ہو گا کہیں ایسا نہ ہو کہ ظالم، سفاک یزید کی افواج سے ٹکر ہو جائے اور حرم پاک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں اسی لیے امن کے دامن کو تھامتے ہوئے آپ علیہ السلام نے کوفہ جانے کی غرض سے سفر شروع کر دیا۔ یزیدی لشکر نے آپ علیہ السلام کو کربلا کے مقام پر روک لیا۔ سات محرم الحرام کو آپ علیہ السلام پر پانی بند کر دیا اور یزید کی بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن آپ علیہ السلام نے انکار کر دیا حتی کہ دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر نے ظلم کے پہاڑ ڈھا دیئے اور آپ علیہ السلام کو فیملی اور ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے شروع سے آخر تک صبر اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آپ امن کے داعی تھے۔ آپ نے کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ گلیوں، بازاروں، اداروں یا محافل میں جا کر بے گناہ معصوم بچوں کو قتل کر دو، بوڑھے اور عورتوں کو قتل کر دو، لوگوں کے گھروں کو اڑا دو، دکانیں جلا دو، تعلیمی مراکز تباہ کر دو، فوجی ادارے برباد کر دو، مسجدوں میں نمازیوں کو قتل کر دو یا غیر مسلم اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں کو نیست و نابود کر دو۔ اگر ایسا کوئی بھی بیان جاری کیا ہو تو بحوالہ پیش کر دیں۔ اس پر ساری امتِ مسلمہ بلکہ غیر مسلم بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے صبر کی مثال قائم کر دی اور امن کا سبق دیا۔ خون خرابے سے بچنے کی غرض سے شہر مدینہ بھی چھوڑ دیا اور مکۃ المکرمہ بھی۔

لہذا معلوم ہوا سیدنا امام حسین علیہ السلام نے ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس میں ریاست سے بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہو۔ بیعت کرنے یعنی ووٹ دینے میں ہر کوئی آزاد ہوتا ہے، جس کو مرضی دے۔ ایسا تو خالق کائنات نے بھی نہیں کیا کہ زبردستی کسی سے کوئی کام کروائے۔ اچھائی اور برائی دونوں راستے انسان کے سامنے رکھ دیئے ہیں، جو چاہے اختیار کر سکتا ہے۔ یزید کون ہوتا ہے جو زبردستی نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیعت کرنے پر مجبور کرے؟

Share: