سوال نمبر 62 : انفاق فی سبیل ﷲ سے کیا مراد ہے؟

586
0
Share:

جواب : انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے : ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اﷲ کا حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری، چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے آخرت کا سامان تیار کرو۔ سورۃ الحدید میں بالخصوص انفاق فی سبیل اﷲ کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌO

’’اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔‘‘

الحديد، 57 : 7

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو زمین و آسمان کی میراث کا مالک قرار دے کر بڑے عمدہ انداز میں انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتا ہے۔

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.

’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔‘‘

الحديد، 57 : 10

بعض لوگ اپنے مال میں کمی کے اندیشہ کے پیش نظر خرچ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی اچھی تمثیل کے ذریعے انفاق فی سبیل اﷲ کو اپنی بارگاہ میں قرض حسنہ قرار دیا ہے۔

کہ جو مجھے قرض دے گا میں اس کی بہترین جزا دیتا ہوں، ارشاد فرمایا :

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَO

’’کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگےo‘‘

البقره، 2 : 245

لہٰذا رضا الٰہی کی خاطر اس کے ضرورتمند بندوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔ جو بڑے اجر کا باعث عمل خیر ہے۔

Share: