سوال : کیا ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن بھی ’’اہل بیت‘‘ میں شامل ہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں؟
جواب : قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
’’اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی دور رکھے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے‘‘۔
(الاحزاب 33 / 33)
اس آیت تطہیر سے پہلے 32 بار ازواج مطہرات کا ذکر ہوا۔ 2 مرتبہ اس آیت تطہیر میں ہوا اور 2 بار آیت تطہیر کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک بیویوں کا ذکر ہوا۔ یہاں تک ٹوٹل 36 بار ازواج مطہرات کا مسلسل ذکر ہورہا ہے۔ لہذا آیت تطہیر اور اس کے سیاق و سباق میں ازواج مطہرات کا ذکر تو 36 بار خود اللہ رب العزت نے کر دیا اور بیویوں کے سوا کسی اور کا یہاں ذکر ہی نہیں۔ ویسے بھی ہر زبان میں اہل بیت گھر والی، بیوی ہی ہوتی ہے۔ کسی نے بیٹی کو گھر والی نہیں کہا، نہ یہ مناسب سمجھا جاتا ہے یہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرم ہے، محبت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ، سیدہ کائنات فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو خداداد نبوی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے اپنی کملی مبارک میں لیکر اہل بیت میں شامل فرما دیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ ازواج مطہرات کو قرآن کریم اور عرف عام نے اہل بیت بنایا اور ان چار حضرات کو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت بنایا تو یہ بھی اہل بیت بن گئے۔ سو ان کے اہل بیت قرار پانے سے وہ ازواج مطہرات تو اہل بیت سے خارج نہیں ہوسکتیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت قرار دیا ہے اور متن (Text) قرآن میں ان کو اہل بیت قرار دیا ہے۔
لہذا ازواج مطہرات قرآنی نص سے اہل بیت ہیں اور یہ چاروں حضرات حدیث پاک سے اہل بیت قرار پائے۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ قرآن کو نظر انداز کرکے صرف حدیث پاک کو لیا جائے۔ اطیعو اللہ بھی ماننا لازم ہے اور اطیعو الرسول پر بھی ایمان لانا فرض۔ بعض کتاب کو ماننا اور بعض کا انکار، اہل ایمان کا نہیں ہنود کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان سے بچائے۔
اسی لئے اس موقع پر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو موجود تھیں، جب انہوں نے چادر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی جگہ رہو، تم بہتر مقام پر فائز ہو‘‘۔
قَالَتْ اُم سَلَمة وَاَنَا مَعَهُمْ يَارَسُوْل قَالَ اَنْتِ عَلٰی مَکَانِکِ وَاَنْتِ اِلَی خَيْر.
’’سیدہ ام سلمہ المومنین رضی اللہ عنہا نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ میں بھی آجاؤں؟ فرمایا تم اپنی جگہ رہو، تم بہتری کی طرف ہو‘‘۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 220)
اس کا مطلب واضح ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ مکرمہ محترمہ تھیں اور سرکار کی پاک بیبیوں کو اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں درجہ بالا تحقیق کی روشنی میں 36 بار ذکر کیا، ان کو اہل بیت فرمایا۔ قرآن کی متعلقہ آیتوں کو بار بار پڑھیں کسی اور کا نام ہی نہیں۔ گویا آیت تطہیر صرف ازواج مطہرات سے متعلق تھی۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چار حضرات کو چادر میں لے کر اہل بیت میں شامل فرما دیا۔
لہذا ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اہل بیت قرار دیا اور ان چاروں حضرات کو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت میں شامل فرمادیا۔ ہم اللہ کی بھی اطاعت کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی۔ کیونکہ حکم خدا ہے۔
اَطِيْعُو اللّٰهَ وَاَطِيْعُوالرَّسُول.
’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو‘‘۔
لہذا قرآن کو مانتے ہوئے تسلیم کریں کہ اہل بیت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں اور حدیث پاک کو مانتے ہوئے تسلیم کریں کہ حضرت علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم بھی حدیث پاک کی رو سے اہل بیت میں شامل ہیں۔ یہی ہمارا ایمان ہے۔