سوال : ایک اہم معاشرتی رسم جسے رسم قل، رسم دسواں یا رسم چہلم کی صورتوں میں فوت شدہ عزیز کی روح کے ایصال ثواب کے لئے منعقد کیا جاتا ہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اس پر تفیصلاً روشنی ڈالتے ہوئے حقیقی صورت حال سے آگاہ فرمائیں؟
جواب : تیسرا، دسواں، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کئے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔ یعنی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، مر جائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو۔ عموماً مرنے والے عزیز، رشتہ دار، دوست احباب ہوتے ہیں کچھ جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں کچھ بوجوہ نہیں ہوسکتے۔ اب دو صورتیں بنتی ہیں ایک تو وہ چپ کرکے بیٹھا رہے۔ آنے کی زحمت ہی نہ کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ میت کے عزیز و اقارب کے پاس اظہار تعزیت کے لئے آئے۔ بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لئے مخصوص کردیئے تاکہ دونوں کو سہولت رہے۔ یہی دن بعد میں تیسرا، دسواں یا چالیسواں کے نام سے مشہور ہوگئے۔ جو جنازے سے رہ گیا وہ قل خوانی پر آجائے۔۔۔ جو اس سے رہ گیا وہ دسواں یا چالیسواں کے روز آجائے۔
جب مقرر کردہ دنوں میں اعزاء اقارب جمع ہوگئے تو سوچا بجائے گپ شپ کے کیوں نہ کچھ پڑھ لیا جائے۔ تلاوت قرآن، کلمہ طیبہ، درود وسلام وغیرہ کا ورد کرلیا جائے، کچھ صدقہ و خیرات حسبِ توفیق ہوجائے تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خاندان و خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کردیا جائے، دعائے مغفرت ہوجائے۔
اب جو شخص اپنے مرنے والے کی خیر خواہی کرنا چاہے وہ کردے، نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ جھگڑے کی ضرورت نہیں سوم، چہلم، دسواں وغیرہ کی یہی اصل ہے۔ مرنے والوں کو ثواب پہنچانا اور دعائے مغفرت کرنا باعث ثواب ہے اور میت کے لئے کار آمد ہے۔
رہا مسئلہ کھانا کھلانے کا اور ختم وغیرہ کا تو عرض ہے جب لوگ آپ کے پاس اظہار تعزیت کے لئے آئے، کچھ لوگ دور سے آئے ہوں گے کچھ نزدیک سے اگر ایسے موقع پر کھانا نہ کھلائیں تو یہ بری بات ہے۔ ویسے بھی حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا۔ ای الاسلام خیر۔ کونسا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا :
تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتُقْری السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرف.
’’کھانا کھلاؤ، سلام کرو جس کو پہنچاتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہنچانتے‘‘۔
(بخاری و مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص7)
لہذا اسلامی احکام پر عمل کرنے پر کسی کو لعن طعن کرنا درست نہیں۔ درود و سلام پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا، خلوص و دل سے ہو، رزق حلال سے ہو تو نیکی ہے کار ثواب ہے۔ ان تمام ثوابوں کو جمع کرکے مرنے والوں کے نام بھیجنا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا، قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔ ہاں اگر لواحقین غریب ہیں تو ان کی طرف سے کھانا بری بات ہے۔ مرنے کے بعد مرنے والے کو نیکیوں کی ضرورت ہے۔ شاید یہی ذکر و نعت، صدقہ و خیرات اس کے لئے بخشش کا وسیلہ بن جائے۔ میت کو ایسے اعمال کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ شریعت میں قل، دسواں، چالیسواں کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے عرف میں ہے۔ اچھی چیز ہے مستحب ہے اس میں کوئی برائی نہیں۔