کلام اقبال
یہ شالا مار میں اک برگ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسم گل جس کا راز دار ہوں میں
نہ پائمال کریں مجھ کو زائرین چمن
انہی کی شاخ نشیمن کی یادگار ہوں میں
ذرا سے پتے نے بیتاب کردیا دل کو
چمن میں آکے سراپا غم بہار ہوں میں
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
اجاڑ گئے عہد کہن کے میخانے
گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں
پیام عیش و عسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
(بانگ درا:378)
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں