امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی

584
0
Share:

امام احمد بن حنبل ربیع الاول 164ھ میں پیدا ہوئے۔ عبداللہ کہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے سنا۔ آپ فرمایا کرتے تھے میں 164ھ کے ربیع الاول میں پیدا ہوا ہوں۔ آپ عجمی نہ تھے بلکہ خالص عربی تھے۔ ماں باپ دونوں کی طرف سے شیبانی تھے۔ شیبان بھی عدنانی قبیلہ ہے جو ترا ابن معدابن عدنان کے واسطے سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ یہ قبیلہ بہادری، شجاعت، حمیت اور غیرت کے اعتبار سے بہت ممتاز رہا ہے۔ امام احمد کی رگوں میں بہادر باپ کا خون جوش مار رہا تھا۔ عزت نفس، عزم، ارادہ صبرو تحمل اور مصائب کے برداشت کی عادت اپنے خاندان سے وارثت میں پائی تھی۔ ایمان راسخ دل میں موجیں مار رہا تھا۔ جب بھی آفات و ابتلاء سے دوچار ہوتے اس وقت یہ خصوصیات اور بھی نمایاں ہوجاتیں اور ایک نکھار سا پیدا ہوجایا کرتا۔ پھر خداوند عالم نے ایسے اسباب بھی پیدا کردیئے تھے کہ ان کے موروثی خصائل کا نشوونما ہوتا رہا۔ آپ کے ابتدائی حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام احمد نے اوائل عمری ہی میں محسوس کرلیا تھا کہ وہ تنہا ہیں چونکہ بچپن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور ماں کی گود سے بھی محروم ہوگئے باپ کے انتقال کے وقت آپ بالکل چھوٹے سے تھے اور کہا کرتے تھے:

’’میں نے اپنے باپ کو دیکھا نہ دادا کو‘‘۔

بلکہ مشہور تو یہ ہے کہ والد کی وفات آپ کی ولادت کے بعد ہی ہوگئی تھی۔ آپ کے والد کی عمر اس وقت تیس سال کی ہوگی۔ ظاہر ہے اس وقت آپ چھوٹے سے ہوں گے۔ نہ کسی چیز کا احساس تھا نہ شعور، باپ کے بعد ماں نے بڑے پیار سے پالا اور پرورش شروع کردی۔ باپ کا ترکہ بھی کچھ زیادہ نہ تھا۔ بغداد میں ایک گھر اور صرف اتنی زمین جہاں سے تھوڑی بہت آمدنی مل جاتی تھی۔ امام موصوف کو اللہ تعالیٰ نے یہ پانچ صفات ایسی عطا فرمائی تھیں جنہوں نے ان کی شخصیت اور سیرت کی تعمیر میں بڑی مدد دی۔

  1. حسب و نسب کی بلندیاں
  2. یتیمی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اعتماد نفس پیدا ہوگیا اور بچپن ہی سے اپنے اوپر بھروسے کے عادی بن گئے۔
  3. فقرو افلاس۔ مگر ایسا فقرو افلاس جس نے آپ کو اگرچہ عیش و تنعم سے تو لذت اندوز نہیں کیا لیکن لذت نفس بھی قریب پھٹکنے نہ دی۔
  4. قناعت۔ جس کے سبب علو فکرو نظر پیدا ہوگیا۔
  5. تقویٰ۔ جس کے سبب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور قوت کے سامنے آپ نے سر نہ جھکایا۔ ان نعمتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ایسی عقل سلیم اور فکر بلند بھی عطا فرمادی جس کے ذریعے آپ نے حقیقت شناسی اختیار کرلی۔

ذاتی صفات میں امام شافعی سے مشابہت

اس مسئلے میں آپ کی مثال امام شافعی سے ملتی جلتی نظر آتی ہے، اعلیٰ نسبی یتیمی، فقر، مفلوک الحال، ہمت عالی، نفس خودشناسی اور ذہن وغیرہ سب صفات دونوں استاد اور شاگرد میں قدر مشترک تھیں۔ اس لئے کہ دونوں ہی کو ان کی ماؤں نے اپنے حسن تربیت کے ذریعے پہچانا اور سربلندی و رفعت کی صلاحیتیں پیدا کیں۔

امام احمد بن حنبل کے درس میں چند خصوصیات ایسی تھیں جو عوام کے دلوں پر بڑی اثر انداز ہوتی تھیں اور وہ یہ ہیں:

اول تو آپ کی مجلس درس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ مجلس میں تواضع و اطمینان نفس کے ساتھ وقار و سکون کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ وقار و سکون کی کیفیت صرف آپ کی علمی مجلس ہی پر منحصر نہ تھی بلکہ آپ کی ہر مجلس، خواہ نجی ہو یا علمی ایسی کیفیت کی حامل ہوا کرتی تھی نہ آپ مذاق کے عادی تھے نہ لہو و لعب کی باتیں پسند فرماتے تھے۔ جو لوگ آپ کی خدمت میں اکثر آیا کرتے تھے وہ اس امر سے بخوبی واقف تھے چنانچہ آپ کی موجودگی میں ہنسی و دل لگی کی باتیں بالکل نہ کرتے۔ خواہ مجلس علم ہو، امام احمد کے شیوخ اور اساتذہ کو بھی آپ کی اس عادت سے واقفیت تھی اور سب اس کا لحاظ رکھتے تھے چنانچہ بزرگ بھی آپ کی موجودگی میں مزاح کی باتوں سے اجتناب کرتے۔ ابو نعیم بحوالہ خلف بن سالم یہ واقعہ نقل کرتے ہیں:

ایک بار ہم لوگ یزید بن ہارون کی مجلس میں موجود تھے، یزید نے اپنے ان شاگردوں سے جو کہ وہ لکھا رہے تھے کوئی بات ہنسی کی کہہ دی، وہاں امام احمد بن حنبل بھی موجود تھے وہ صرف حلق میں کچھ لگنے کی طرح کھنگارے تو یہ دیکھ کر یزید نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور سب سے کہا: کمبختو! تم نے مجھے بتایا کیوں نہ تھا کہ احمد بھی یہاں موجود ہیں، بھلا میں بات ہی کیوں کرتا۔

خود داری

بسا اوقات تو آپ اس پر بھی مجبور ہوجاتے کہ مزدوری کے بل بوتے پر پیٹ پالتے جب جیب خالی ہوتی اور اس وقت بھی یہ امر آپ گراں گزرتا کہ کسی کا عطیہ قبول کرلیں اور آپ اپنے جسم کو تکلیف پہنچانا گوارا کرلیا کرتے لیکن اپنے ضمیر کو مجروح نہ ہونے دیتے، زندگی بھر اسی طرح دن گزارے آپ نے ہمیشہ اپنا ضمیر آزاد رکھا خواہ جسمانی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔

کسب معاش

اس ماحول میں امام موصوف زندگی گزارتے تھے۔ زندگی کی سختیاں برداشت کرتے، عسرت و تنگدستی کا مقابلہ کرتے مگر عطیات اور تحفہ جات قبول نہ کرتے۔ کسب حلال کا آپ ہر لمحہ اور قدم قدم پر خیال رکھتے تھے کہ جو مال ان کے پاس آرہا ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی حرام ہونے کا تصور پیدا نہ ہوسکے۔ اگر ذرا سا شبہ بھی ہوجاتا تو فوراً واپس کردیتے خواہ اس کی واپسی کے بعد کتنا ہی تنگدستی اور عسرت سے دوچار کیوں نہ ہونا پڑے، لہذا احرام کے مقابلے میں تکالیف کو ترجیح دیتے۔ ایک بار امام موصوف کچھ بیمار ہوگئے تو آپ کے صاحبزادے آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا میرے پاس کچھ روپیہ ہے جو متوکل نے ہدیہ کے طور پر دیا تھا کیا میں اس کو خرچ کرسکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ہاں کرسکتے ہو۔ بیٹے نے عرض کیا: اگر ایسی کوئی رقم آپ کے پاس ہوتی تو آپ بھی اس کو اپنے تصرف میں لے آتے یہ سنا تو ارشاد فرمایا: بیٹے! میں خلیفہ کے عطایا کو حرام نہیں سمجھتا لیکن ان کا لینا، تزکیہ نفس کے خلاف سمجھتا ہوں۔

اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام احمد خلفاء کے عطایا کو حرام اور ناجائز تو نہ خیال کرتے تھے مگر مشتبہ ضرور سمجھتے اور جب بھی کسی شے کے متعلق یہ تصور ہوجاتا کہ یہ مشتبہ ہے تو پھر اس کا استعمال میں لانا تزکیہ نفس کے خلاف سمجھتے۔

اخلاص

امام احمد بن حنبل میں چوتھی اور مابہ الامتیاز خصوصیت یہ تھی کہ آپ طلب حقائق میں انتہائی اخلاص سے کام لیتے تھے اور اس خصوصیت کے سبب آپ اپنے دوسرے معاصرین کے مقابلے میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ آپ ہر کام میں ایسا خلوص تلاش کرتے جس میں نفس کا کوئی دخل ہی نہ ہو۔ آپ صرف ایسے خلوص کے خواہاں تھے۔ ایک بار آپ حج کو جارہے تھے، راستہ میں ایک جگہ ایک لڑکی کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک مری ہوئی چڑیا ہے اور وہ اس کو چیر رہی ہے تاکہ کھالے۔ ابن مبارک ٹھٹک کر وہیں کھڑے ہوگئے اور لڑکی سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے جواب دیا:

میں اور میرا بھائی یہاں بالکل بے سہاراپڑے ہیں اور اب ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ نہ کھانے اور پیٹ پالنے کا کوئی سامان ہی ہے۔ اور اب کوئی صورت نہیں۔ ہمیں فاقہ سے آج تین دن گزر گئے ہیں اور مردار بھی ہمارے لئے حلال ہوگیا ہے، ہمارا باپ ایک مالدار شخص تھا۔ اس پر ظلم ہوا اور تمام مال چھین لیا گیا اور اسے غارتگروں نے قتل کردیا۔

ابن مبارک نے اپنے سیکرٹری سے دریافت کیا۔ زاد راہ کی مد میں اب تمہارے پاس کتنی رقم باقی ہے؟ اس نے جواب دیا۔ ایک ہزار دینار۔ امام ابن مبارک نے حکم دیا۔ اس رقم میں سے صرف بیس دینار اپنے پاس رہنے دو۔ جو ہمیں کافی ہوجائیں گے، باقی رقم اس لڑکے کو دے دو۔ یہ کام حج سے زیادہ ثواب کا باعث ہے اور پھر وہ واپس چلے گئے۔ (تاریخ ابن کثیر)

صبرو تحمل

امام احمد میں سب سے زیادہ خوبی جوان اوصاف کے مقابلے میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور وہ وصف جو آپ کی شہرت و عزت کا سب سے بڑا سبب بنا اور درحقیقت یہ وہ خوبی جو آپ کے تمام فضائل و خصائص اور صفات قدسیہ کی اصل بنیاد ہے۔ جو آپ کی قوت ارادی، سچائی اور عالی ہمتی کے سبب تھی اور اس وجہ سے آپ نے اپنے جسم کو مصائب و آلام کے لئے وقف کردیا تھا اور اپنے نفس کو مطمئن اور پاک و صاف کرلیا، مصائب کے فتنوں میں مبتلا ہوکر اس طرح نکلے جیسے بھٹی سے تپا ہوا سونا نکلتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ہر میل کچیل اور گھناؤنی فضاؤں سے پاک و صاف کرلیا۔ دنیاوی آسائش کے جال کو آپ نے کاٹا اور توڑ دیا اور ہر وہ شے ترک کردی جو مشکوک تھی اور ہر وہ چیز اختیار کرلی جو درجات تیقن کی حامی تھی۔ جاہ منصب نے انہیں دعوت دی مگر آپ نے رد کردی۔ زندگی کی آسائش و آرام اور کسی شے میں اپنا دل نہ پھنسایا۔ جس طرح صیقل شدہ اور صاف و شفاف بدن پر میل نہیں رہتا۔

امام احمد کی آزمائش تنگدستی، فقرو فاقہ اور غربت و افلاس سے بھی ہوئی مگر غربت نے ان کے قلب کو کثیف نہ کیا۔ فقرو افلاس نے آپ کی عقل کو فتنہ میں مبتلا نہ کیا۔ چار خلفائے وقت نے یکے بعد دیگرے آپ کو آزمائش کے میدان میں گھسیٹا لیکن اس امتحان کے بعد ایک باکباز اور ملک سرشت کی حیثیت سے باہر نکل آئے۔ اس وقت اختیار و آزمائش کے طریقے بھی نئے تھے۔ مامون نے قیدو بند کے مصائب میں مبتلا کیا۔ آپ زندان خانے کی طرف چار دیواری میں اس طرح گئے کہ بیڑیوں کا وزن اور ہتھکڑی کی جھنکار چلنے نہ دیتی تھی۔ معتصم نے سزائے قید دی۔ کوڑوں سے پٹوایا۔ وائق نے پابندیاں عائد کیں اور زندگی تلخ کردی لیکن کوئی تکلیف ان میں تزلزل نہ لاسکی پھر ان کے بعد ایک بڑی بلکہ سب سے سخت آزمائش سے ہمکنار ہونا پڑا۔ متوکل نے سونے چاندی کے ڈھیر سامنے جمع کردیئے مگر آپ نے نہایت لاپرواہی سے سیم و زر کے انبار کو ٹھکرادیا۔ آپ نے نعمت سے مامور دستر خوان اس وقت بھی ٹھکرادیئے جب بھوک سے نڈھال ہوچکے تھے۔ سونے چاندی کی تھیلیاں اس وقت بھی واپس کردیں جب جیب بالکل خالی تھی۔ ریشم و دیباج کے لباس پر اس وقت بھی نگاہ نہ ڈالی جب بوسیدہ اور پرانا لباس جسم پر تھا۔ آپ نے کسی ایسی شے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا جو مشکوک یا شان تقویٰ کے خلاف تھی۔

امام احمد کے دور میں اور کسی کو ان کے مقابلے میں نہیں دیکھا جو دیانت و امانت میں بڑھا ہوا ہو اور ان سے زیادہ اپنے نفس پر قابو پانے والا ہو۔ فقہ پر عامل ہو، اخلاق بزرگانہ کوٹ کوٹ کر بھرے ہوں۔ دل میں اثبات ہو۔

(المناقب، 214)

امام احمد عوام الناس میں سب سے زیادہ حیا دار، کریم النفس، حسن معاشرت اور تہذیب و اخلاق کے حامل تھے، لغویات سے الگ رہتے تھے، ہمیشہ نظر نیچی رکھتے۔ لبوں پر حدیث اور صالحین اور ان کی حکایات کے علاوہ اور کوئی بات نہ کرتے۔ جو بھی ان سے ملتا خوش ہوتا۔

(المناقب، 215)

یہ تھے امام احمد کے اخلاق اور عادات و خصائل، امام احمد نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا منہاج اختیار کیا تھا۔ اسی کے نور کی روشنی حاصل کرکے دوسروں کی رہبری کی اور ہمیشہ اس آیت پر عمل کیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی تمہارے لئے اسوۃ حسنہ ہے۔ (ماخوذ از امام احمد بن حنبل)

Share: