حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اور علاجِ نفس
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جس راہ سے گزرتے اس راستے پر بادشاہ کی مجلس بھی آتی تھی، آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں سے جب گزرتے تو بادشاہ ان کے ادب و احترام میں کھڑا ہوجاتا اور سب وزراء بھی کھڑے ہوجاتے۔۔۔ بادشاہ و وزراء سلام کرتے۔۔۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جواب دیتے اور گزر جاتے۔۔۔ ایک دن ایسا ہوا کہ بادشاہ و وزراء آپ کے ادب میں کھڑے تھے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس بادشاہ کی طرف منہ کرکے تھوک دی، آپ کے اس عمل پر بادشاہ و وزراء کو غصہ آیا اور آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔ مریدین کو بات سمجھ نہ آئی، پریشان ہوئے۔ آگے جاکر اس عمل کے بارے پوچھا کہ آپ کے اخلاق حسنہ ہیں، آپ نے ان کی طرف منہ کرکے تھوک دیا؟ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ صوفیاء کی علامت یہ ہے کہ یہ اخلاق حسنہ کے پیکر ہوتے ہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا نمونہ کسی نے دیکھنا ہو تو وہ اولیاء و صوفیاء ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی سب سے بڑی خیرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اہل تصوف، اولیاء و صلحاء کو ملی ہے، یہی ولایت ہے اور یہی تصوف ہے۔
مریدین کے سوال پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میں یہی چاہتا تھا۔ اس لئے کہ میں روز یہاں سے گزرتا اور وہ میرے لئے کھڑے ہوتے تھے، میں نفس میں جھانکتا تو ان کے کھڑے ہونے سے میرے نفس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھ، مگر آج جب بادشاہ اور پورا دربار میرے ادب میں کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے نفس میں تھوڑی ہلچل ہوئی ہے اور نفس کے اندر یہ خیال آیا کہ بایزید، اللہ نے تجھ پر اتنا کرم کیا ہے کہ شاہان وقت بھی تیرے اکرام میں کھڑے ہوتے ہیں، پس جونہی نفس میں یہ خیال آیا میں نے چاہا کہ نفس کا علاج یہیں اسی وقت کردوں، کہیں بڑھ نہ جائے پس میں نے اس لئے تھوکا کہ مجھے معلوم تھا کہ جب تھوکوں گا تو وہ مجھے گالیاں دیں گے اور بیٹھ جائیں گے، جب انہوں نے برا بھلا کہا اور بیٹھ گئے میں نے نفس کو کہا کہ سن لیا یہ ہے تیرا اصل مقام، اب دیکھ وہ گالیاں دے رہے ہیں۔ مجھے تو نہ بادشاہ کے کھڑے ہونے سے کوئی غرض تھی نہ بیٹھنے سے، میں تو اپنے نفس کے حال کو درست رکھنا چاہتا تھا۔
نفس بڑا شیطان ہے۔ یہ نفس کاملہ کے درجہ پر بھی پہنچ جائے تو اپنی مکاری و عیاری سے باز نہیں آت، تاک میں لگا رہتا ہے کہ تھوڑی سی غفلت کہیں ہو اور پھر حملہ کرے۔۔۔ اصل سرشت سے باز نہیں آتا۔ اس لئے اہل اللہ آخری مراتب پر بھی پہنچ کر نفس کا دھیان رکھتے ہیں کہ کہیں یہ ڈس نہ لے۔
اس لئے فرمایا کہ جو شخص خوف و محبت کے ساتھ اس کے معرفت کے راستے پر چل نکلتا ہے تو وہ کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں تصور یہ ہے کہ ’’بس جی بیڑا ہی پار ہے‘‘۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں، میلاد شریف، گیارہویں شریف کا انعقاد کرتے ہیں۔ فلاں بزرگ سے نسبت ہے۔۔۔ فلاں کے مرید ہیں اس لئے نماز، روزہ کی خیر ہے۔۔۔ وقت مل گیا تو پڑھ لی، جی چاہا تو روزہ رکھ لیا۔۔۔ طبیعت میں آگیا تو کسی کی کوئی ضرورت پوری کردی۔۔۔ دیگیں پکوادیں، عمرے اور حج پر چلے گئے۔۔۔ بس اس طرح کے آسان آسان کام کرلئے اور سوسائٹی میں حاجی صاحب، میاں جی کہلواتے رہے۔۔۔ یعنی یہ پارٹ ٹائم شریعت بھی ہم نے اپنا رکھی ہے۔ میں نے تو ساری زندگی کسی ایسے ولی کو نہیں دیکھا جس نے ’’ایسے ہی بیڑا پار ہونے‘‘ کی تعلیم دی ہو۔۔۔ یہ مال کمانے والے لوگ ایسے ہی بیڑے پارلگاتے ہیں کہ بس آپ ایک بار ہمارے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں، ہماری جیب بھر دیں ان شاء اللہ بیڑا ہی پار ہے۔ افسوس! عرس میں سال میں ایک مرتبہ حاضری۔۔۔ اور پیر صاحب کو نذر نیاز دینے کو ہم نے تصوف بنالیا۔ یہ اولیاء کی تعلیمات نہیں اور نہ یہ تصوف ہے۔ اولیاء وہ تھے جن کی زندگی کا کوئی لمحہ سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نہ تھا اور جن کی زندگی کثرتِ غم میں گزرتی تھی۔