انتہائ نایاب ترین مضمون
72 شہداء کربلا اور 18 بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین کے اسماے گرامی اور مفصل حالات زندگی
انتھائ نایاب ترین مضمون
تحفظ اسلام کی خاطر سر زمین اسلام کربلا پر سر سے گذرنے والے آسمان وفا کے بہتر ستارے ، اٹھارہ بنی ہاشم اور امام حسین علیہ السلام اجمعین کے مختصر حالات پر لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
میں اپنی اس کاوش کو سید الشہدا کی دکھیا بہن شریکتہ الحسین ثانی زہرا بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے نام نامی اور اسم گرامی سے معنون کرتا ہوں ۔
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین رقم کرد و دیگرے زینب
آسمان وفا کے وہ 72 ستارے یعنی جانثاران حسین مظلوم علیہ السلام جو آفتاب امامت حضرت امام حسین علیہ السلام اور اٹھارہ بنی ہاشم کے ہمراہ زمین کربلا میں مٹی میں ملا دئے گئے۔۔ہ کربلا میں امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، حسن مثنی، مرقع ابن قمامہ اسدی اور عقبہ ابن سمعان غلام جناب بی بی رباب کے علاہ کوئی مرد باقی نہ رہا تھا ۔
پیش نظر ایک فہرست شہداء علیہم السلام اجمعین ہے اور اس کے بعد ان کے مفصل حالات ۔ جو تاجدار انسانیت حضرت امام حسین علیہ اسلام کے ساتھ کربلا میں شہید راہ حق و اسلام ہوئے
فہرست انصار امام حسین علیہ السلام
۔۔۱ حضرت حر ابن یزید الریاحی
۔۲ علی ابن حر الریاحی
۔ نعیم بن العجلان الانصاری
۔۴۔عمران بن کعب الاشجعی
۔۵۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی
۔۶۔ قاسط بن زہیر التغلبی
۔۷۔ کردوس بن زہیر التغلبی
۔۸۔ کنانہ بن عتیق التغلبی
۔ ۹۔ عمر بن صبیقی الضبعی
۔ ۱۰۔ ضرغامہ ابن مالک التغلبی
۔۱۱۔ غامر بن مسلم العبدی
۔۱۲۔ سیف ابن مالک العبدی
۔ ۱۳۔ عبد الرحمان الارجبی
۔ ۱۴، مجمع بن عبداللہ العامذی
۔ ۱۵۔حیان بن حارث السلمانی
۔ ۱۶۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی
۔ ۱۷۔ حلاس بن عما الراسبی
۔ ۱۸ ۔ نعمان بن عمرالراسبی
۔ ۱۹۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی
۔ ۲۰۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی
۔ ۲۱۔ زاہر بن عمر الکندی
۔ ۲۲۔ جبلہ ابن علی الشیبانی
۔ ۲۳۔ مسعود بن حجاج التیمی
۔ ۲۴۔ حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی
۔ ۲۵۔ عبداللہ ابن بشر الخثعمی
۔ ۲۶۔ عمار ابن حسان الطائی
۔ ۲۷۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی
۔ ۲۸۔ مسلم ابن کشیر الازدی
۔ ۲۹۔ زہیر ابن سیلم الازدی
۔۳۰۔ عبد اللہ بن یزید العبدی
۔۳۱۔ بشر بن عمر الکندی
۔۳۲۔ عبداللہ بن عروہ الغفاری
۔۳۳۔ بریر ابن خضیر الہمدانی
۔۳۴۔ وہب ابن عبداللہ الکلبی
۔۳۵۔ ادہم بن امیتہ العبدی
۔۳۶۔ امیہ بن سعد الطائی
۔۳۷۔سعد ابن حنظلہ التمیمی
۔۳۸۔ عمیر ابن عبداللہ المد حجی
۔۳۹۔ مسلم بن عوسجہ الاسدی
۔۴۰۔ ہلال ابن نافع البجلی
۔۴۱۔ سعید بن عبداللہ الحنفی
۔۴۲۔ عبد الرحمن بن عبد المزنی
۔۴۳۔ نافع بن ہلال الجملی
۔۴۴۔ عمر ابن قرظتہ الانصاری
۔۴۵۔ جون بن حوی غلام الغفاری
۔۴۶۔ عمر ابن خالد الصیدادی
۔۴۷۔ حنظلہ ابن اسعد الشبامی
۔۴۸۔ سوید ابن عمار الاتماری
۔۴۹۔یحیی بن سلیم المازنی
۔۵۰۔ قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری
۔۵۱۔ مالک ان انس المالکی
۔۵۲۔ زیاد ابن غریب الصائدی
۔۵۳۔ عمر بن مطاع الجعفی۔
۔۵۴۔ حجاج ابن مسروق المدحجی
۔۵۵۔ زہیر ابن قین ابجلی
۔۵۶۔ حبیب ابن مظاہر الاسدی
۔۵۷۔ ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی
۔۵۸۔ انیس بن معقل الاصبحی
۔۵۹۔۔ جابر ان عروۃ الغفاری
۔۶۰۔ سالم مولی عامر العبدی
۔۶۱۔ جنادہ ابن کعب الخزرجی
۔۶۲۔ عمر بن جنادۃ الانصاری
۔۶۳۔ جنادہ بن الحرث السلمانی
۔۶۴۔ عابس ابن شبیب الشاکری
۔۶۵۔ شوذب ابن عبداللہ الہمدانی
۔۶۶۔ عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری
۔۶۷۔ حرث ابن امرو القیس الکندی
۔۶۸۔ یزید ابن زیاد الہدلی
۔۶۹۔ ابو عمرو النہثلی
۔۷۰۔ جندب بن حجیر الخولانی الکندی
۔۷۱۔ سلمان بن مضارب الانماری
۔۷۲۔ مالک ابن عبداللہ الجابری
۔ شہدائے اٹھارہ بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین
۔۱۔ عبداللہ ابن مسلم
۔۲۔ محمد ابن مسلم
۔۳۔ جعفر ابن عقیل
۔۴۔ عبد الرحمان بن عقیل
۔۵۔ عبداللہ ابن عقیل
۔۶۔ موسی ابن عقیل
۔۷۔ عون بن عبداللہ بن جعفر طیار
۔۸۔ محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار
۔۹۔ عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۰۔ قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۱۔ عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۲۔ عبداللہ بن علی ابن ابی طالب
۔۱۳۔ عثمان بن علی ابن ابی طالب
۔۱۴۔ جعفر بن علی ابن ابی طالب
۔۱۵۔ علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب
۔۱۶۔ علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۷۔ محمد بن ابی سعید بن عقیل
۔۱۸۔ علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
مفصل احوال زندگی و شہادت :
۔ ۱۔ حضرت حر ابن یزید الریاحی
آپ کا نام گرامی حر بن یزید ابن ناجیہ ابن قعنب بن عتاب بن حرمی ابن ایاح بن یربوع بن خنظلہ بن مالک بن زید مناۃ ابن تمیم الیرنوعی الریاحی تھا۔ آپ کا شمار کوفے کے روساء میں ہوتا تھا ۔ اور واقعہ کربلا اپ کی امام علیہ السلام سے پہلی ملاقات مقام شراف پر ہوئی تھی جب حر کا لشکر پانی کی تلاش میں بے حال اور پریشان تھا ۔ امام علی مقام ساقی کوثر نے لشکر کو سیراب کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد حر نے نماز امام کی اقتداء میں پڑہی اور بعد نماز بعد نماز راستہ روکنے اور محاصرہ کرنےکا عندیہ دیا ۔ امام نے فرمایا کہ حق پر جان دینا ہماری عبادت ہے راستے میں مقام عذیب پر طرماح ابن عدی اپنے 4 ساتھیوں سمیت امام سے آ ملے ۔ ۔ قصر بنی مقاتل پر مالک بن نصر حکم نامہ حاکم لے کے آیا جس میں مرقوم تھا کہ جہان یہ حکم ملے امام علیہ السلام کو وہیں ٹہرا دینا ۔ اور اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کے آس پاس پانی اور جزی کا انتظام نہ ہو ۔ القصہ مختصر شب عاشور حر ساری رات پریشان اور متفکر رہے کہ جنت اور دوزخ میں سے کس کا انتخاب کریں ۔ اور صبح عاشور امام کی بارگاہ میں حاظر ہوئے اور ازن معافی اور ازن جہاد طلب کر کے پچاس دشمنوں کا واصل جہنم کر کے ایوب ابن مشرح کے تیر سے گھائل ہو کے گھوڑے سے نیچے گرے اور قسور ابن کنانہ کے تیر سے جو آپ کے سینے پر لگا شہید ہوئے ۔
ریاض الشہادت میں روایت ہے کہ بنی اسد نے امام حسین علیہ السلام سے ایک فرسخ کے فاصلے پر غربی جانب آپ علیہ السلام کو دفن کیا اور وہیں آپ علیہ السلام کا روضہ بنا ہوا ہے ۔
۔۲۔ علی ابن حر الریاحی
آپ حر بن یزید الریاحی کے بیٹے تھے ۔ نام علی تھا حر علیہ السلام کی شہادت کے بعد حر شہید کے قدموں سے اپنی آنکھوں کو ملایا اور امام علیہ السلام کے قدم بوس ہر کر ازن شہادت طلب کیا اور شہید ہوئے ۔
۔ ۳ ۔ نعیم بن العجلان الانصاری
آپ قبیلہ خزرج کے چشم و چراخ تھے اور آپ کے ۲ بھائی نضر اور نعمان اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں تھے اور آپ واقعہ کربلا میں عاشور کا اولین شہداء میں شامل ہوئے ۔ یہ وہ جنگ تھی جو صبح عاشور بوقت نماز فجر ہوئی تھی ۔ تاریخ میں جنگ مغلوبہ کے نام سے مشہور ہے ۔
۔۴۔۔عمران بن کعب الاشجعی
آپ کا پورا نام عمران بن کعب ابن حارث الاشجعی تھا ۔ آپ نے امام عالی مقام علیہ السلام جس وقت سے ساتھ دیا آخر دم تک اسی پر قائم رہے آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۵۔۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی
آپ بھی امام علیہ السلام کے وفاداروں میں تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۶ ۔ قاسط بن زہیر التغلبی
جناب امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے جمل، نہروان، صفین میں جانبازی سے شریک ہوئے تھے اور بہت جری تھے ۔ آپ کوفہ سے امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے آئے تھے اور سبھ عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۷۔ کردوس بن زہیر التغلبی
آپ کا نام کردوس بن زہیر حرث تغلبی تھا آپ قاسط بن زہیر کے حقیقی بھائی تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ روایت ہے کہ آپ بھی اپنے تیسرے بھائی مسقط بن زہیر کے ہمراہ امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے شب عاشور کربلا میں وارد ہوئے تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۸۔ کنانہ بن عتیق التغلبی
آپ کوفہ کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتے تھے ۔ قرات قران میں بھی شہرت رکھتے تھے ۔ کربلا میں جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۹۔ عمر بن صبیقی الضبعی
آپ کا پورا نام عمر بن صبیقہ ابن قیس بن ثعلبتہ الضبعی تھا۔ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ امام علیہ السلام سے مقابلے کے لیے کربلا آئے تھے ۔ لیکن صحیح حالات سے با خبر ہونے کے بعد لشکر کو خیر باد کہہ کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں معافی طلب کر کے جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔ ۱۰۔ ضرغامہ ابن مالک التغلبی
آپ کا نام اسحاق اور لقب ضرغامہ تھا ۔ آپ امیرالمو منین علیہ السلام کے جانباز صحابی مالک اشتر کے بیٹے اور ابراہیم بن مالک کے بھائی تھے ، کوفے میںجناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کے ہاتھ پر امام علیہ السلام کی بیعت کر کے کربلا پہنچ کر یوم عاشور 500 درندوں کو واصل جہنم کر کے شہید ہوئے ۔
۔ ۱۱ ۔ غامر بن مسلم العبدی.
آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے شعیہ اور بصرہ کے رہنے والے تھے آپ کا پورا نام غامر بن مسلم عبدی المطری تھا آپ مکہ معظمہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ ہو گئے تھے اور تا دم آخر ساتھ ہی رہے ۔اپ کے ہمراہ آپ کا غلام سالم بھی تھا ، زیارت ناحیہ کی بناء پر آپ کا غلام بھی آپ کے ہمراہ ہی شہید ہو ا۔
۔۱۲ ۔ سیف ابن مالک العبدی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے ماریہ کے مکان پر جو خفیہ اجتماع ہوا کرتا تھا آپ اس میں شامل ہوا کرتے تھے۔ اپ نے مکہ میں امام علیہ السلام کی معیت اختیار کی اور جنگ ملغوبہ میں یوم عاشور کو شہید ہوئے ۔
۔۱۳۔ عبد الرحمان الارجبی
آپ قبیلہ بنو ہمدان کے شاخ بنوار جب کے چشم و چراغ تھے اپ کا پورا نام عبد الرحمن بن عبداللہ الکذن بن ارجب بن دعام بن مالک بن معاویہ بن صعب بن رومان بن بکیر الھمدانی الارجبی تھا۔ آپ اس دوسرے وفد کے ایک رکن تھے جو کوفے سے خطوط لے کے مکہ گئے تھے جبکہ آپ کے ہمراہ قیس اور 50 خطوط تھے ۔ یہ وفد12 رمضان کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا تھا ۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کے جناب مسلم علیہ السلام کے ہمراہ یہی عبد الرحمن ، قیس اور عمارہ شامل تھے ۔ عبد الرحمن جناب مسلم کو کوفے پہنچا کر واپس امام علیہ السلام کی خدمت میں مستقل شامل ہو گئے تھے اور عاشور کو امام علیہ السلام کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے ۔
۔ ۱۴، مجمع بن عبداللہ العامذی
آپ قبیلہ مذحج کے نمایاں فرد تھے ۔ آپ کو امیر المومنین علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے امام علیہ السلام مقام عذیب میں کوفے کے تمام حالات سے آگاہ کیا تھا اور کوفہ جانے والے امام کے آخری قاصد قیس ابن مہر کی گرفتاری اور انکی شہادت سے امام علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔آپ بھی جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ کچھ روایات نے آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عائذ بن مجمع کی شہادت بھی کربلا میں لکھی ہے ۔
۔۱۵۔حیان بن حارث السلمانی
آپ قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے ۔ مدینے سے کربلا جاتے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ ہوئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں امام علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔
۔۱۶۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی
جندع قبائل ہمدان کی ایک شاخ کا نام تھا آپ کربلا میں شامل لشکر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ علامہ مجلسی ، فاضل اربلی اور سپہر کاشانی نے اپنی کتابوں میں جنگ ملغوبہ کےبجائے میدان کارزار میں شہادت بیان کی ہے ۔ زیارت ناحیہ میں ورد آگین الفاظ کے ساتھ آپ پر سلام کیا گیا ہے ۔
۔۱۷۔ حلاس بن عمر الراسبی
آپ کوفہ کے رہائشی اور قبیلہ ازو کی شاخ راسب کی یادگار تھے اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار ہوتے تھے ۔ کوفہ سے عمر سعد کے لشکر کے ہمراہ آئے تھے اور جب آپ کو یقین ہو گیا کے صلح نہ ہو سکے گی تو شب عاشور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۱۸ ۔ نعمان بن عمر الراسبی
آپ بھی قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے اپ حلاس ازدی کے سگے بھائی تھے لشکر ابن سعد سے بغاوت کر کے شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔
۔۱۹۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی
آپ ھمدان کے رہنے والے تھے اور محرم کے مہینے میں امام علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے ۔ اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۲۰۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی
آپ قبائل ہمدان کی ایک شاخ بنی دالان کے ایک معزز فرد تھے اورآپ کو صحابی رسول صلی علیہ و آل وسلم اور صحابی امیر المومنین علیہ السلام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جنگ جمل ، صفین و نہروان میں حضرت امیر المومنین کے ساتھ رہے ۔ آپ بھی جنگ ملغوبہ میں شہیند ہوئے ۔
۔۲۱۔ زاہر بن عمر الکندی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی عمرو بن الحمق کے ساتھ ہر وقت ہمراہ رہتے تھے آپ نہایت زبردست پہلوان مشہور تھے اور عرب کے لوگ آپ سے متاثرتھے آپ حج کے لیے مکہ پہنچے اور پھر امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے۔ آپ مکہ سے کربلا امام علیہ السلام کے ہمراہ آئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کے پوتوں میں محمد بن سنان امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے روایوں میں شامل ہیں محمد ابن سنان کی وفات 220 ہجری میں ہوئی ۔
۔۲۲۔ جبلہ ابن علی الشیبانی
آپ جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہو گئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۳۔ مسعود بن حجاج التیمی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک تھے۔ آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے اور پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر جبگ ملغوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اپ کے ہمراہ اپ کے فرزند عبد الحمن ابن مسعود بھی شہید ہوئے تھے ۔
۔۲۴۔ حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی
اپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور آپ کا تعلق بنی سعد سے تھا آپ رئیس بصرہ مسعود بن عمر کا خط لے کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پھر واپس نہیں گئے ۔ اور یوم عاشور جنگ ملغوبہ میں امام علیہ السلام پر قربان ہو گئے ۔
۔۲۵۔ عبداللہ ابن بشر الخثعمی
آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے تھے اور اور صبح عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جنگ ملغوبہ میں شہید ہو کر شہداء میں شامل ہوئے ۔
۔۲۶۔ عمار ابن حسان الطائی
آپ امام عالی مقام علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے کربلا آئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے
۔۲۷۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی
آپ قبیلہ علیم کے چراغ تھے آپ پہلوانی میں بہت ماہر تھے اور کوفہ کے محلہ ہمدان کے قریب چاہ جعد میں رہتے تھے ۔ کوفہ سے اپنی زوجہ کے ہمراہ نکل کر امام کی لشکر میں شامل ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کی زوجہ ام وہب جب آپ کی لاش پر پہنچی تو شمر کے ایک غلام رستم نے اس مومنہ کے سر پر گرز کا وار کر کے ان کو بھی شہید کر دیا ۔ آپ کی زوجہ کو کربلا کی پہلی خاتون شہید کہا جاتا ہے ۔
۔۲۸۔ مسلم ابن کشیر الازدی:
آپ امام علیہ السلام کے کربلا پہنچنے سے قبل کسی مقام پر امام علیہ السلام کے ہمراہ شامل ہو گئے تھے اور صبح عاشور شہید ہوئے ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کے ایک غلام رافع ابن عبد اللہ بھی شامل تھے جو کربلا میں نماز ظہر کے بعد شہید ہوئے ۔
۔۲۹۔ زہیر ابن سیلم الازدی:
آپ قبیلہ ازد کے نمایاں فرد تھے اور شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ کو شامل لشکر ہوئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۳۰۔ عبداللہ بن یزید العبدی :
آپ اپنی قوم کے سردار اور کوفے میں ماریہ کےگھر جو اجلاس ہوتا تھا اس میں شرکت کرتے تھے آپ مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے اور کربلا میں اولین جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ آپ کے بھائی عبید اللہ اور والد گرامی یزید ابن ثبیط بھی مکہ سے ہم رکاب ہوئے اور عبید اللہ نے اولین اور بعد نماز جنگ میں والد نے شہادت پائی ۔
۔۳۱۔ بشر بن عمر الکندی :
آپ حضر موت کے رہنے والے تھے اور قبیلہ کندہ کے فرد تھے آپ بھی جنگ اولین میں شہید ہوئے ۔
۔۳۲۔ عبداللہ بن عروہ الغفاری :
آپ کربلا میں امام علیہ السلام سے آ کر ملے اور جنگ ملغوبہ میں شہادت پائی ۔
۔۳۳۔ بریر ابن خضیر الہمدانی :
آپقبیلہ بنو ہمدان کی شاخ بنو مشرق کی عظیم شخصیت تھے ۔ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور مکہ سے اما علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے ۔ شب عاشور پانی کی جدوجہد میںجو کارنامہ کیا ہے وہ تاریخ میں سونے کے حروف سے رقم ہے ۔ آپ کا شب عاشور پانی لانا وہ واقعہ تاریخ میں رقم ہے ۔ مائتین صفحہ 316-323 ۔ یوم عاشور سب سے پہلا گریہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا وہ آپ کی کی جسد خاکی پر کیا تھا “ان بریر امن عباد اللہ الصالحین “” ہاے بریر ہم سے جدا ہو گئے جو خدا کے بہترین بندوں میں سے ایک تھے ”
۔۳۴۔ وہب ابن عبداللہ الکلبی:
یہ حسینی بہادر نصرانی تھا اور کسی سفر میں اپنی بیوی اوروالدہ کے ہمراہ جا رہا تھا امام علیہ السلام کے نصرت کے لیے رکا اور اسلام قبول کیا اور کتاب ذکر العباس میں تفصیل سے موجود ہے ۔ آپ نے 24 پیادے ۔ قتل کیے اور آپ کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ آپ کی لاش پر گئیں اور اسی دوران شمر کے حکم پر اسک کے غلام رستم نے اپ کو بھی شہید کر دیا ۔ بعض مورخین نے آپ کی زوجہ کو پہلی خاتون شہید لکھا ہے ۔ روایت ہے کے اپ کا سر کات کے خیام حسینی کی طرف پحینکا گیا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان کی طرف پحینک دیا اور فرمایا ” ہم راہ مولا علیہ السلام میں جو چیز دے دیتے ہیں اس واپس نہیں لیتے ۔”روایت ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی 2 دشمنوں کو واصل جہنم کیا تھا ۔۔ دمعہ ساکبہ ص 331 ، طوفان بکا13
۳۵۔ ادہم بن امیتہ العبدی
آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ میں سکونت اختیار کی تھی ۔ ماریہ کے مکان پر ہونے والے تمام اجلاسوں میں شریک ہوئے ۔ ایک دن یزید بن ثبیط نے کہا کے میں امام علیہ السلام کی امداد کے لیے مکہ جا رہا ہوں ۔ آپ نے کہا کے میں بھی ساتھ چلوں گا ۔ آپ مکہ پہنچے اور یوم عاشور اپنی جان عزیز امام علیہ السلام پر قربان کر کے امر ہو گئے ۔
۔۳۶۔ امیہ بن سعد الطائی
آپ کوفے میں رہتے تھے جب آک کو علم ہوا کے مام حسین علیہ السلام کربلا پہنچح گئے ہیں تو آپ فی الفور کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گئےاور یوم عاشور کمال جذبہ قربانی کے پیش نظر امام علیہ السلام اور اسلام پر قربان ہو گئے ۔
۔۳۷۔سعد ابن حنظلہ التمیمی
آپ کے بیشتر حالات تاریخ میں موجود نہیں ہیں مگر ایک جملہ موجود ہے کہ آپ نہایت بے جگری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فناکے گھاٹ اتار کر میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا۔
۔۳۸۔ عمیر ابن عبداللہ المد حجی
جناب سعد ابن حنظلہ کی شہادت کے بعد آپ میدان میں آئے اور کمال بے جگری سے لڑ کر بالاخر مسلم صبانی اور عبداللہ بجلی نے آپ کو شہید کیا ۔
۔۳۹۔ مسلم بن عوسجہ الاسدی
آپ کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ 24 ہجری میں فتح آذربائیجان میں حذیفہ یمان کے ہمراہ جو کارنامے انجام دءے وہ تاریخ میں موجاد ہیں ۔ نو محرم کی شام میں امام علیہ السلام کا وہ خطبہ جس میں امام علیہ السلام نے جب انصار اور احباب سے واپس جانے کو کہا تھا تو اعزاء کی طرف سے حضرت عباس علمدار علیہ السلام اور انصار کی طرفجناب مسلم بن عوسجہ نے کہا تھا ” کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ہم اگر سار عمر مارے جائیں اور جلا بھی دئے جائیں تب بھی آپ کی معرفت اور ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی خدمت میں شہادت ، شہادت عظیم ہے۔”
شب عاشور جب خندق کے گرد آگ جلانے پر لشکر کفار سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہی اسکا منہ توڑ جواب دیا تھا۔
جب آپ مسلم بن عبداللہ اور عبداللہ بن خشکارہ بلخی کے ہاتھوں شہید ہوئے تو شبت ابن ربعی اگر چہ دشمن تھابولا ” افسوس تم ایسے شخص کے مرنے پر خوشی کر رہے ہو جس کے اسلام پر احسانات ہیں جس نے جنگ آزربائیجان میں مشرکوں کی کمر توڑ دی تھی “
آپ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند میدان میں آءے اور 30 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔
۔۴۰۔ ہلال ابن نافع البجلی
آپ کی پرورش امیر المومنین علیہ السلام نے کی تھی ۔ تیر اندازی میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اور عادت تھی کی تیروں پر اپنا نام کندہ کر کے استعمال کرتے تھے ۔ شب عاشور امام علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور موقعہ جنگ کا معائنہ کیا ۔ ترکش میں موجود 80 تیروں سے 75 دشمنوں کو قتل کیا اور اسکے بعد تلوار سے 13 کو واصل جہنم کیا ۔ اور پھر کفار کی طرف سے اجتماعی حملے میں شہید ہوئے ۔
۔۴۱۔ سعید بن عبداللہ الحنفی
آپ کوفے کی نامی گرامی اشخاص میں تھے ۔ اور میدان کربلا میں بوقت نماز ظہر جب دوران جماعت دشمنوں نے تیر اندازی شروع کی تو آپ امام علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ایک بھی تیر امام کی طرف آنے نہ دیا تا اینکہ شہید ہو گئے ۔
۔۴۲۔ عبد الرحمن بن عبد المزنی
آپ نہایت سعید اور محب آل محمد تھے یوم عاشور اذن جنگ حاصل کر کے میدان میںآئے اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے ۔
۔۴۳۔ نافع بن ہلال الجملی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے جمل ، نہروان ،اور صفین میں شر کت کی ۔ کربلا میں سعی آب کی کوششوں میں علمدارکربلا کے ساتھ شریک ہوئے ۔ 12 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے۔
۔۴۴۔ عمر ابن قزظتہ الانصاری
آپ مدینہ سے آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئے تھے اصحاب امیر المومنین میں شامل تھے ۔ میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے پیغامات عمر بن سعد تک پہنچایا کرتے تھے ۔ آپ نے بہت بے جگری سے جنگ لڑی اور با لا خر شہید ہو کر راہ حق میں کامیاب ہوئے ۔
۔۴۵۔ جون بن حوی غلام الغفاری
آپ جناب ابوزر غفاری کے غلام تھے ۔ جون پہلے امام حسن علیہ السلام کی خدمت کرتے تھے اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے خدمت میں مصروف ہو گئے ۔آپ امام علیہ السلام کے ہمراہ مکہ سے مدینہ اور کربلا آئے ، عاشورہ کے دن آپ پہلے فرد ہیں جن کو امام علیہ السلام نے کئی بار ازن شہادت طلب کرنے کا با وجود منع فرمایا اور کہا ” جون مجھے پسند نہیں کہ میں تم کو قتل ہوتا دیکھوں “ پھر جون کا وہ جملہ جو تاریخ میں مرقوم ہے ” مولا میرا پسینہ بدبودار ، حسب خراب اور رنگ کالا ہی سہی لیکن عزم شہادت میں کوئی خامی نہیں ہے۔ مولا بہرا خدا اجازت عطا کریں تا کہ سرخ رو ہو سکوں۔”۔ ازن ملنے کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو امام علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ ” پروردگار ان کے پسینے کو مشکبار رنگ کو سفید اور حسب کو آل محمد کے انتساب سے ممتاز کر دے “ روایت ہے کہ دعا ختم ہوتے ہیں جون مثل گلاب اور پسینہ انتہائی معطر ہو گیا تھا۔
۔۴۶۔ عمر ابن خال الصیدادی
آپ کوفہ سے نکل کر مقام عذیب پر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوم عاشورہ کو عروس شہادت ہے ہم کنار ہوئے ۔
۔۴۷۔ حنظلہ ابن اسعد الشبامی
آپ امام علیہ السلام کے پاس کربلا میں پہنچے تھے اور بہت جواں مردی کے ساتھ جنگ کر کے شہید ہوئے ۔
۔۴۸۔ سوید ابن عمار الاتماری
آپ بڑے شجاع اور آزمودہ کار زار تھے آپ کو میدان کربلا میں عروہ بن بکار اور یزید بن ورقا نے شہید کیا۔
۔۴۹۔یحیی بن سلیم امازنی
آپ شب عاشور بریر ہمدانی کے ساتھ پانی کے لیے کی جانے والی کوشش میں شریک تھے اور۔ یوم عاشور کو امام علیہ السلام کے انصاروں کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے ۔
۔۵۰۔ قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری
آپ نہایت شریف اور جانباز تھے ۔ یوم عاشور امام علیہ السلام سے اجازت حاصل کرنے کے بعد دشمن پر اتنی بے جگری سے حملے کیے کہ اند کے دانت کھٹے کر دئے ۔ آپ رجز پڑھتے اور حملے کرتے یہاں تک کے شہید ہو گئے۔
۔۵۱۔ مالک ان انس المالکی
آپ کا نام انس بن حرژ بن کاہل بن عمر بن صعب بن اسد بن حزیمہ اسدی کاہلی تھا ۔ آپ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے صحابی اور راوی حدیث بھی ہیں ۔ آپ کوفہ سے نکل کے امام علیہ السلام کی بارہ میں کربلا میں حاضر ہوئے ۔ آپ نہایت کبیر السن تھے ۔یو یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے شہید ہوئے۔
۔۵۲۔ زیاد ابن غریب الصائدی
آپ کی کنیت ابو عمرۃ تھی ۔ اپ بنی ہمدان کی شاخ بنی حائد کی چراغ تھے۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔ آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا۔
۔۵۳۔ عمر بن مطاع الجعفی
۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔
۔۵۴۔ حجاج ابن مسروق المدحجی
آپ کا شمار انصار امیر المومنین علیہ السلام میں ہوتا تھا ۔ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کا سن کر آپ بھی کوفہ سے عازم سفر ہوئے اور منزل قصر بنی مقاتل میں شرف ملاقات حاصل کیا اور ، 15 دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد واپس امام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے واپسی پر آپ کا غلام ” مبارک ” بھی ہمراہ ہو گیا دونوں نے کمال کی جنگ کی اور 150 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے
۔۵۵۔ زہیر ابن قین ابجلی
آپ کوفہ کے رہائشی تھے پہلے عثمانی بعد میں حسینی علوی ہو گئے ۔ حج سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپسی پر امام علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے ۔ امام کے لشکر میں شامل ہونے کے بعد اپنی زوجہ کو طلاق دے کے واپس بھیج دیا اور خود شیہد ہو گئے۔ روایت ہے کہ شب عاشور جب ایک رات کی مہلت لینے کے لیے علمدار کربلا گئے تحے تو آپ بھی ان کے ہمراہ گئے تھے ۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کے میمنہ کی سربراہی بھی جناب کو ہی عطا کی گئی تھی۔ آپ ناے 120 افراد کو قتیل کر کے جام شہادت نوش کیا ۔
۔۵۶۔ حبیب ابن مظاہر الاسدی
آپ صحابی رسول صلی علیہ و آلہ وسلم تھے اور امام علیہ السلام کے بچپن کے دوست تھے ۔ آپ کاایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ نے ۳ اماموں علیہ السلام اجمعین کی صحبت کو شرف حاصل کیا ۔ روایت ہے کہ مقام زرو پر امام نے اپ کی آمد کا انتظار کیا ۔ اور میسرہ کی کمان آپ کے سپرد کی ۔ یوم عاشور آپ نے 62 دشمن واصل نار کیے اور بدیل ابن حریم عفقائی کی تلوار کی ضرب سے گھائل ہئوے اور حصین بن نمیر نے تلوار جو آپ کے سر مبارک پر لگی شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ آپ کا قاتل ابن زیاد سے 100 درہم کا انعام لے کے اور آپ کا سر مباک گھوڑے کی گردن میں لٹکا کر مکہ پہنچا جہان حبیب کے ایک فرزند نے اس کو قتل کر کے آپ کا سر مبارک مقام معلی میں جو اب ” راس الحبیب ” کے نام سے مشہور ہے دفن کر دیا ۔
۔۵۷۔ ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی
آپ نماز ظہر کے لیے عین ہنگامہ کارزار میں امام علیہ السلام جب امامت فرما رہے تھے ۔ آپ نے امام علیہ السلام کی حاظت کرتے ہوئے ۔ کمال دلیری سے شمشیر زنی کی اور اپنے چچا زاد بھائی قیس ابن عبداللہ انصاری کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۵۸۔ انیس بن معقل الاصبحی
آپ آلمحمد علیہ السلام کے جانثاروں میں سے تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے ۔
۔۵۹۔۔ جابر ابن عروۃ الغفاری
آپ صحابی رسول تھے ۔ اور کافی غزوات میں شریک ہوئے ۔ آپ نہایت ضعیف تھے ۔ جنگ پر جانے سے قبل اپ نے عمامہ سے اپنی کمر اور ایک کپڑے سے اپنے پلکوں کو اٹھا کر باند لیا تھا ۔ غضب کا معرکہ لڑا اور 60 افراد کو قتیل کر کے شہید ہوئے۔
۔۶۰۔ سالم مولی عامر العبدی
آپ بصر کے رہنے والے تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے ۔ اور کربلا میں شہید ہوئے ۔
۔۶۱۔ جنادہ ابن کعب الخزرجی
آپ قبیلہ خزرج کی یادگار تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے۔ 18 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔
۔۶۲۔ عمر بن جنادۃ النصاری
آپ جنادہ ابن کعب کے فرزند اور کم تھے باپ کی شہادت کے بعد والدہ نے آپ کو تیار کر کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کیا امام نے کہا ” ابھی تمہارا پاب شہید ہوا میں تم کو اجازت نہیں دے سکتا” تو آپ کی والدہ نے امام علیہ السلام امام کی قدم بوسی کی اور اجازت طلب کی ۔ امام علیہ السلام سے اجازت لے کر میدان میں گئے اور شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ قاتل نے سر کاٹ کر خیام کی طرف پھینکا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان میں پھینک دیا جو قاتل کی سینے پر لگا اور وہ وہیں واصل جہنم ہو گیا ۔
۔۶۳۔ جنادہ بن الحرث السلمانی
اپ کوفہ کے رہائشی تھے اور امام علیہ السلام سے راستے میں ملاقات کر کے شامل ہوئے ۔ کربلا میں میدان جبگ میں ظہر سے قبل شہید ہوئے ۔
۔۶۴۔ عابس ابن شبیب الشاکری
آپ قبیلہ بنو شاکر کی یادگار تھے اور یہ وہی قبیلہ ہے جس کی بابت امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ صفین میں فرمایا تھا ” اگر بنو شاکر کے 1000 افراد موجود ہوں تو دینا میں اسلام کے علاہ کوئی اور مذہب نہ ہو۔ ” یوم عاشور پر جب میدان میں آ کر مبازر طلب کیا تو کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ بالاخر آپ پر اجتماعی پتھراو کیا گیا اور سب نے مل کر حملہ کیا جس سے آپ شہید ہوئے ۔
۔۶۵۔ شوذب ابن عبداللہ الہمدانی
آپ عابس الشاکری کے غلام تھے اور بلا کے جری تھے ۔ آپ بھی اپنے مالک کے ہمراہ میدا کربلا میں شہید ہوئے ۔
۔۶۶۔ عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری
آپ کوفہ کے رہائشی تھے اور میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے نصرت اور تائید میں شہید ہوئے ۔
۔۶۷۔ حرث ابن امرو القیس الکندی
آپ سبھ عاشور لشکر ابن سعد سے نکل کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے اور جام شہادت نوش کیا ۔
۔۶۸۔ یزید ابن زیاد الہدلی
آپ کی کنیت ابو الشعشا تھی ۔آپ اپنی قوم کے سردار اور فنون جنگ میں طاق تھے ۔آپ میدان کربلا میں بے جگری سے لڑے تو دشمنوں نے آپ کے گھوڑے کے پیر کاٹ دیے اس وقت آپ کے ترکش میں 100 تیر تھے آپ نے ہر تیر سے ایک فرد کا واصل نار کیا ۔ تیر ختم ہونے کے بعد تلوار بازی کی اور نیزہ لگنے سے گھائل ہوئے ۔ اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔
۔۶۹۔ ابو عمرہ النہثلی
آپ میدان کربلا کی انفرادی جنگ میں شہید ہوئے آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا
۔ ۷۰۔ جندب بن حجیر الخولانی الکندی
آپ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور کوفی سے نکل کر لشکر حر کی آمد سے پیشتر امام علیہ السلام کی کدمت میں حاضر ہوئے ۔ یوم عاشورہ کو حمایت فرزند رسول علیہ السلام میں جنت کے حقدار ہوئے ۔
۔۷۱۔ سلامن بن مضارب الانماری
آپ زہیر ابن قین کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مکہ سے امام علیہ السلام کے ہمرکاب ہوئے اور یوم عاشور بعد نماز ظہر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔
۔۷۲۔ مالک ابن عبداللہ الجابری
آپ یوم عاشورہ سے چند یوم پہلے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ۔ آپ کی شہادت پر امام نے وہ ایک جملہ کہا جو تاریخ میں محفوظ ہے “ اے میرے وفادار بہادروں ۔ تم میرے نانا کی خدمت میں چلو میں تمہارے پیچھے آ رہا ہوں “
شہدائے اٹھارہ بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین ( مفصل احوال )
کارزار کربلا میں امام علیہ السلام کے اصحاب با صفاء اور موالیان باوفا کی شہادت کے بعد امام علیہ السلام کے اعزاء و اقرباء ، برادران ، اور اولاد نے راہ اسلام میں عظیم اور لازوال قربانیاں دیں اور اسلام کو سدا بہار بنا دیا ۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سواء کیا ہے
ایک ضرب ید اللہ ایک سجدہ شبیری
۔۱۔ عبداللہ ابن مسلم
آپ حضرم مسلم علیہ السلام کے فرزند اور امام علیہ السلام کے بھانجے اور امیر المومین علیہ السلام کے نواسے تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ رقیہ بنت علی علیہ السلام اور نانی کا نام صہبا بنت عباد ۔ آپ کی والدہ قبیلہ بنی ثعلبتہ کی فرد اور کنیت ام حبیبۃ تھی۔آپ آٹحارہ بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں اپ نے 90 دشمنوں کو واصل نار کیا اور دوران جنگ عمر ابن صبیح صیدادی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا جس کو روکتے ہوئے وہ آپ کا ہاتھ پیشانی میں پیوست ہو گیا ۔ اس نے دوسرا تیر آپ سے سینے پر ماری جس سے آپ نے شہادت پائی ۔
۔۲۔ محمد ابن مسلم
آپ بھائی کو زخمی دیکھ کر امام علیہ السلام سے ازن شہادت لے لر میدان میں گئے اور گمسان کی جنگ کی آپ کا ابوجرہم ازدی اور لقیط ابن ایاش جہمی نے شہید کیا ۔
۔۳۔ جعفر ابن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اور آپ کی والدہ “حوصا” بنت عمرہ بن عام بن حسان بن کعب بن عبد بن ابی بکر ابن کلاب عامری اور آپ کی نانی ریطہ بنت عبداللہ بن ابی بکر تھیں۔ میدان جنگ میں 15 دشمنوں کو قتل کر کے بشر ابن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔۔
۔۴۔ عبد الرحمان بن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 17 دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد ابن اثیم اور بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۵۔ عبداللہ ابن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں بہت سے دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد کے ہاتھون شہید ہوئے
۔۶۔ موسی ابن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 70 دشمنون کو قتل کر کے سرور کائنات کی بارگاہ میں پہنچے ۔
۔۷۔ عون بن عبداللہ بن جعفر طیار
آب جناب عبداللہ کے فرزند اور حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے نواسے آپ کی والدہ زینب کبری علیہ السلام اور نانی جناب خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ تھیں جناب عبداللہ ابن جعفر علالت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں دے دیا تھا اور امام علیہ السلام پر جانثاری کی ہدایت کر کے چلے گئے تھے۔ جناب عون کے رجز کے اشعار نے اشقیا کے دل دہلا دِے تھے ۔ آپ نے 30 سوار ، 18 پیادے قتل کئے اور عبدا بن قطنہ نبھانی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۸۔ محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار
آپ جناب عون کے بھائی اور اور 10 دشمنوں کا قتل کرنے کے بعد عامر بن نہشل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۹۔ عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام حسن علیہ السلام کے بڑے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو بکر تھی آپ کی والدہ گرامی کا نام جناب “رملہ ” اور کچھ روایات کے مطابق ” نفیلہ” تھا۔ میدان کربلا میں 80 آدمیوں کو قتل کرنے کےبعد عبداللہ بن عقبی غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۱۰۔ قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام حسن علیہ السلام اور جناب رملہ کے فرزند تھے آپ نہایت جری تھے ارزق شامی جیسے نامی گرامی پہلوان کو میدان کربلا میں قتل کیا ۔ اور جب دشمنوں سے زیر نہ ہوئے تو سب نے اچانک چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا اور عمیر بن نفیل ازدی کے وار سے گھائل ہوئے ۔ گھوڑے سے گرنے کے بعد زندہ ہی پامال سم اسپاں ہو گئے ۔
۔۱۱۔ عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب
آپ مام حسن علیہ السلام کے فرزند اور والدہ بنت شلیل بن عبداللہ بجلی تھیں آپ کے نانا صحابی رسول تھے کربلا میں سب بلوغ تک نہ پہنچے تھے مگر شجاعت بے مثال کے مالک تھے 14 دشمنوں کو قتل کر کے بدست ہانی ابن شیت خضرمی شہیند ہوئے ۔
۔۱۲۔ عبداللہ بن علی ابن ابی طالب
آپ علمدار کربلا کے حقیقی بھائی اور فرزند جناب ام البنین اور امیر المومنین علیہ السلام تھے ۔کربلا میں ہانی بن ثبیث حضرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۱۳۔ عثمان بن علی ابن ابی طالب
آپ بھی علمدار کربلا کے بھائی تھے آپ کی عمر 23 برس تھی اور میدان کربلا میں خولی شقی کے تیر سے گھائل ہوکر زخمی ہوئے اور قبیلہ ابان بن وارم کے ایک شخص کی تلوار سے شہید ہوئے ۔
۔۱۴۔ جعفر بن علی ابن ابی طالب
آپ کی عمر 21 برس اور میدان کربلا میں ہانی ابن ثبیث کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۱۵۔ علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب ۔
ان بہادران بنی ہاشم کی شہادت کے بعد علمدار کربلا نے ازن شہادت طلب کیا مگر امام علیہ السلام نے ازن جنگ نہ دیا اور فرمایا کہ اطفال کے لیے پانی کا بندوبست کرو آپ مشکیزہ اور علم لے کے میدان میں گئے ، جنگ کی اجازت نہ ملنےکے باوجود آپ کی ہیبت سے لشکر میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ آپ نے پانی پر قبضہ کیا مشک بھری اور واپس ازن خیام ہوئے ۔ جب لشکر نے دیکھا کہ آپ بغیر تلوار کے ہیں تو آپ پر حملہ کیا اور پانی کی مشک بچاتے ہوئے آپ کا داہنا ہاتھ زیند بن ورقا کی تلوار سے قلم ہوا ۔ بایاں ہاتھ حکیم ابن طفیل نے قلم کیا مشکیزے پر تیر لگنے سے سارا پانی بہہ گیا اور ایک تیر آپ کی سینے پر لگا۔آپ کی شہادت پر امام علیہ السلام نے فرمایا ” ہائے میری کمر ٹوٹ گئی” آپ کو کمال حسن کی وجہ سے قمر بنی ہاشم بھی کہا جاتا ہے مشہور القاب ” سقہ ” ، ابو قریہ ہیں شہادت کے وقت آپ کی عمر 34 برس تھی۔
۔۱۶۔ علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام علیہ السلام کے منجھلے بیٹے تھے امیر المومنین علیہ السلام اور جناب خاتون جنت سلام اللہ علیھا کے پوتے تھے ۔ اپ کی والدہ کا نام ” ام لیلی ” تھا۔آپ صورت اور سیرت میں پیغمبر اسلام کے مشابہ تھے آپ کا نام علی ابن حسین ۔ کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا۔ آپ نے میدان کربلا میں120 دشمنوں کو قتل کیا اور منقذ ابن مرہ عبدی نے آپ کے گلوئے مبارک پر تیر مار اور ابن نمیر ناے سینہ اقدس پر نیزے کا وار کیا ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 18 برس تھی ۔
۔۱۷۔ محمد بن ابی سعید بن عقیل
آپ جناب عقیل کے فرزند اور نہایت کم سن تھے جناب علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ چوب خیمہ لے کر باہر نکلے اور امام علیہ السلام کی طرف رخ کیا ابھی آپ امام علیہ السلام کے نزدیک بھی نہیں پہنچے تھے کہ نفیظ ابن یاسی نے آپ پر تلوار کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے ۔
۔۱۸۔ علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام علیہ السلام کے کمسن ترین فرزند اور ۱۰ رجب سن 60 کو پیدا ہوئے آپ کی والدہ کا نام رباب بنت امرہ القیس بن عدی بن اوس تھا۔ یوم عاشور کو جب امام علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند کی تو آپ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔ امام علیہ السلام جب بے شیر شہزادے کہ لے کر میدان میں گئے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی اور لشکر بے قابو ہونے لگا اور ابن سعد نے حرملہ کو حکم دیا کاے تیر سہہ شعبہ استعمال کرو۔ اس لعین نے گلوئے صغیر کو تاکا اور تیر کمان سے چھوڑ دیا تیر کا لگنا تھا کہ شش ماہہ امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر منقلب ہو گئے ۔ امام علیہ السلام نے خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی طرف پھر زمین کی طرف پھینکنا چاہا مگر دونوں نے اس خون نا حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بالاخر آپ علیہ السلام نے اس لہو کو اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا ، اور فرمایا کہ ” اسی حالت میں اپنے نانا کی بارگاہ میں جاوں گا “
انکار آسمان کو ہے راضی زمیں نہیں
اصغر تمہارے خون کا ٹھکانا کہیں نہیں
تاجدار انسانیت سید الشہداء جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت
جب آپ علیہ السلام کا کوئی معین اور مددگار باقی نہ رہا تو آپ خود میدان کارزار میں آئے آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر 1951 زخم آئےاور آپ زمین پر اس طرح تشریف لائے کے آپ علیہ السلام نہ تو زین پر تھے اور نہ زمین پر ۔ نماز عصر کا وقت آ چکا تھ اآپ سجدہ خالق میں گئے تو شمر ملعون نے کند خنجر سے آپ کا سر مبارک جدا کر دیا ۔
یہ واقعہ یہ عظیم قربانیاں 10 محرم سن 61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی بروز جمعہ اس دنیا میں وقوع ہوا۔ اور دین اسلام کی لازوال تاریخ رقم کر گیا ۔
مجاہد فی سبیل اللہ ایسے کم نظر آئے
قیامت ہو جنہیں اک اک گھڑی شوق شہادت میں
حوالہ کتب ۔
ریاض الشہادت ،سیرآلائمہ،ناسخ التواریخ ،زیارت ناحیہ ،ابصار،اسرار شہادت ،قمقام ،دمعہ ساکبہ،روضتہ الشہداء ،نور العین ، مقاتل الطالبین ، مجالس مفجعہ ، زکر العباس،
آخر میں دعا گو ہوں کہ پردودگار ہماری اس قلیل سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے اور ہم سب پر اپنا رحم اور کرم نازل کرے اور ہم کو راہ حق پر استوار رکھے۔72 شہداء کربلا اور 18 بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین کے اسماے گرامی اور مفصل حالات زندگی
انتھائ نایاب ترین مضمون
تحفظ اسلام کی خاطر سر زمین اسلام کربلا پر سر سے گذرنے والے آسمان وفا کے بہتر ستارے ، اٹھارہ بنی ہاشم اور امام حسین علیہ السلام اجمعین کے مختصر حالات پر لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
میں اپنی اس کاوش کو سید الشہدا کی دکھیا بہن شریکتہ الحسین ثانی زہرا بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے نام نامی اور اسم گرامی سے معنون کرتا ہوں ۔
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین رقم کرد و دیگرے زینب
آسمان وفا کے وہ 72 ستارے یعنی جانثاران حسین مظلوم علیہ السلام جو آفتاب امامت حضرت امام حسین علیہ السلام اور اٹھارہ بنی ہاشم کے ہمراہ زمین کربلا میں مٹی میں ملا دئے گئے۔۔ہ کربلا میں امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، حسن مثنی، مرقع ابن قمامہ اسدی اور عقبہ ابن سمعان غلام جناب بی بی رباب کے علاہ کوئی مرد باقی نہ رہا تھا ۔
پیش نظر ایک فہرست شہداء علیہم السلام اجمعین ہے اور اس کے بعد ان کے مفصل حالات ۔ جو تاجدار انسانیت حضرت امام حسین علیہ اسلام کے ساتھ کربلا میں شہید راہ حق و اسلام ہوئے
فہرست انصار امام حسین علیہ السلام
۔۔۱ حضرت حر ابن یزید الریاحی
۔۲ علی ابن حر الریاحی
۔ نعیم بن العجلان الانصاری
۔۴۔عمران بن کعب الاشجعی
۔۵۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی
۔۶۔ قاسط بن زہیر التغلبی
۔۷۔ کردوس بن زہیر التغلبی
۔۸۔ کنانہ بن عتیق التغلبی
۔ ۹۔ عمر بن صبیقی الضبعی
۔ ۱۰۔ ضرغامہ ابن مالک التغلبی
۔۱۱۔ غامر بن مسلم العبدی
۔۱۲۔ سیف ابن مالک العبدی
۔ ۱۳۔ عبد الرحمان الارجبی
۔ ۱۴، مجمع بن عبداللہ العامذی
۔ ۱۵۔حیان بن حارث السلمانی
۔ ۱۶۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی
۔ ۱۷۔ حلاس بن عما الراسبی
۔ ۱۸ ۔ نعمان بن عمرالراسبی
۔ ۱۹۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی
۔ ۲۰۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی
۔ ۲۱۔ زاہر بن عمر الکندی
۔ ۲۲۔ جبلہ ابن علی الشیبانی
۔ ۲۳۔ مسعود بن حجاج التیمی
۔ ۲۴۔ حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی
۔ ۲۵۔ عبداللہ ابن بشر الخثعمی
۔ ۲۶۔ عمار ابن حسان الطائی
۔ ۲۷۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی
۔ ۲۸۔ مسلم ابن کشیر الازدی
۔ ۲۹۔ زہیر ابن سیلم الازدی
۔۳۰۔ عبد اللہ بن یزید العبدی
۔۳۱۔ بشر بن عمر الکندی
۔۳۲۔ عبداللہ بن عروہ الغفاری
۔۳۳۔ بریر ابن خضیر الہمدانی
۔۳۴۔ وہب ابن عبداللہ الکلبی
۔۳۵۔ ادہم بن امیتہ العبدی
۔۳۶۔ امیہ بن سعد الطائی
۔۳۷۔سعد ابن حنظلہ التمیمی
۔۳۸۔ عمیر ابن عبداللہ المد حجی
۔۳۹۔ مسلم بن عوسجہ الاسدی
۔۴۰۔ ہلال ابن نافع البجلی
۔۴۱۔ سعید بن عبداللہ الحنفی
۔۴۲۔ عبد الرحمن بن عبد المزنی
۔۴۳۔ نافع بن ہلال الجملی
۔۴۴۔ عمر ابن قرظتہ الانصاری
۔۴۵۔ جون بن حوی غلام الغفاری
۔۴۶۔ عمر ابن خالد الصیدادی
۔۴۷۔ حنظلہ ابن اسعد الشبامی
۔۴۸۔ سوید ابن عمار الاتماری
۔۴۹۔یحیی بن سلیم المازنی
۔۵۰۔ قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری
۔۵۱۔ مالک ان انس المالکی
۔۵۲۔ زیاد ابن غریب الصائدی
۔۵۳۔ عمر بن مطاع الجعفی۔
۔۵۴۔ حجاج ابن مسروق المدحجی
۔۵۵۔ زہیر ابن قین ابجلی
۔۵۶۔ حبیب ابن مظاہر الاسدی
۔۵۷۔ ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی
۔۵۸۔ انیس بن معقل الاصبحی
۔۵۹۔۔ جابر ان عروۃ الغفاری
۔۶۰۔ سالم مولی عامر العبدی
۔۶۱۔ جنادہ ابن کعب الخزرجی
۔۶۲۔ عمر بن جنادۃ الانصاری
۔۶۳۔ جنادہ بن الحرث السلمانی
۔۶۴۔ عابس ابن شبیب الشاکری
۔۶۵۔ شوذب ابن عبداللہ الہمدانی
۔۶۶۔ عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری
۔۶۷۔ حرث ابن امرو القیس الکندی
۔۶۸۔ یزید ابن زیاد الہدلی
۔۶۹۔ ابو عمرو النہثلی
۔۷۰۔ جندب بن حجیر الخولانی الکندی
۔۷۱۔ سلمان بن مضارب الانماری
۔۷۲۔ مالک ابن عبداللہ الجابری
۔ شہدائے اٹھارہ بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین
۔۱۔ عبداللہ ابن مسلم
۔۲۔ محمد ابن مسلم
۔۳۔ جعفر ابن عقیل
۔۴۔ عبد الرحمان بن عقیل
۔۵۔ عبداللہ ابن عقیل
۔۶۔ موسی ابن عقیل
۔۷۔ عون بن عبداللہ بن جعفر طیار
۔۸۔ محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار
۔۹۔ عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۰۔ قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۱۔ عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۲۔ عبداللہ بن علی ابن ابی طالب
۔۱۳۔ عثمان بن علی ابن ابی طالب
۔۱۴۔ جعفر بن علی ابن ابی طالب
۔۱۵۔ علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب
۔۱۶۔ علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
۔۱۷۔ محمد بن ابی سعید بن عقیل
۔۱۸۔ علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
مفصل احوال زندگی و شہادت :
۔ ۱۔ حضرت حر ابن یزید الریاحی
آپ کا نام گرامی حر بن یزید ابن ناجیہ ابن قعنب بن عتاب بن حرمی ابن ایاح بن یربوع بن خنظلہ بن مالک بن زید مناۃ ابن تمیم الیرنوعی الریاحی تھا۔ آپ کا شمار کوفے کے روساء میں ہوتا تھا ۔ اور واقعہ کربلا اپ کی امام علیہ السلام سے پہلی ملاقات مقام شراف پر ہوئی تھی جب حر کا لشکر پانی کی تلاش میں بے حال اور پریشان تھا ۔ امام علی مقام ساقی کوثر نے لشکر کو سیراب کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد حر نے نماز امام کی اقتداء میں پڑہی اور بعد نماز بعد نماز راستہ روکنے اور محاصرہ کرنےکا عندیہ دیا ۔ امام نے فرمایا کہ حق پر جان دینا ہماری عبادت ہے راستے میں مقام عذیب پر طرماح ابن عدی اپنے 4 ساتھیوں سمیت امام سے آ ملے ۔ ۔ قصر بنی مقاتل پر مالک بن نصر حکم نامہ حاکم لے کے آیا جس میں مرقوم تھا کہ جہان یہ حکم ملے امام علیہ السلام کو وہیں ٹہرا دینا ۔ اور اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کے آس پاس پانی اور جزی کا انتظام نہ ہو ۔ القصہ مختصر شب عاشور حر ساری رات پریشان اور متفکر رہے کہ جنت اور دوزخ میں سے کس کا انتخاب کریں ۔ اور صبح عاشور امام کی بارگاہ میں حاظر ہوئے اور ازن معافی اور ازن جہاد طلب کر کے پچاس دشمنوں کا واصل جہنم کر کے ایوب ابن مشرح کے تیر سے گھائل ہو کے گھوڑے سے نیچے گرے اور قسور ابن کنانہ کے تیر سے جو آپ کے سینے پر لگا شہید ہوئے ۔
ریاض الشہادت میں روایت ہے کہ بنی اسد نے امام حسین علیہ السلام سے ایک فرسخ کے فاصلے پر غربی جانب آپ علیہ السلام کو دفن کیا اور وہیں آپ علیہ السلام کا روضہ بنا ہوا ہے ۔
۔۲۔ علی ابن حر الریاحی
آپ حر بن یزید الریاحی کے بیٹے تھے ۔ نام علی تھا حر علیہ السلام کی شہادت کے بعد حر شہید کے قدموں سے اپنی آنکھوں کو ملایا اور امام علیہ السلام کے قدم بوس ہر کر ازن شہادت طلب کیا اور شہید ہوئے ۔
۔ ۳ ۔ نعیم بن العجلان الانصاری
آپ قبیلہ خزرج کے چشم و چراخ تھے اور آپ کے ۲ بھائی نضر اور نعمان اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں تھے اور آپ واقعہ کربلا میں عاشور کا اولین شہداء میں شامل ہوئے ۔ یہ وہ جنگ تھی جو صبح عاشور بوقت نماز فجر ہوئی تھی ۔ تاریخ میں جنگ مغلوبہ کے نام سے مشہور ہے ۔
۔۴۔۔عمران بن کعب الاشجعی
آپ کا پورا نام عمران بن کعب ابن حارث الاشجعی تھا ۔ آپ نے امام عالی مقام علیہ السلام جس وقت سے ساتھ دیا آخر دم تک اسی پر قائم رہے آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۵۔۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی
آپ بھی امام علیہ السلام کے وفاداروں میں تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۶ ۔ قاسط بن زہیر التغلبی
جناب امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے جمل، نہروان، صفین میں جانبازی سے شریک ہوئے تھے اور بہت جری تھے ۔ آپ کوفہ سے امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے آئے تھے اور سبھ عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۷۔ کردوس بن زہیر التغلبی
آپ کا نام کردوس بن زہیر حرث تغلبی تھا آپ قاسط بن زہیر کے حقیقی بھائی تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ روایت ہے کہ آپ بھی اپنے تیسرے بھائی مسقط بن زہیر کے ہمراہ امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے شب عاشور کربلا میں وارد ہوئے تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۸۔ کنانہ بن عتیق التغلبی
آپ کوفہ کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتے تھے ۔ قرات قران میں بھی شہرت رکھتے تھے ۔ کربلا میں جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۹۔ عمر بن صبیقی الضبعی
آپ کا پورا نام عمر بن صبیقہ ابن قیس بن ثعلبتہ الضبعی تھا۔ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ امام علیہ السلام سے مقابلے کے لیے کربلا آئے تھے ۔ لیکن صحیح حالات سے با خبر ہونے کے بعد لشکر کو خیر باد کہہ کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں معافی طلب کر کے جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔ ۱۰۔ ضرغامہ ابن مالک التغلبی
آپ کا نام اسحاق اور لقب ضرغامہ تھا ۔ آپ امیرالمو منین علیہ السلام کے جانباز صحابی مالک اشتر کے بیٹے اور ابراہیم بن مالک کے بھائی تھے ، کوفے میںجناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کے ہاتھ پر امام علیہ السلام کی بیعت کر کے کربلا پہنچ کر یوم عاشور 500 درندوں کو واصل جہنم کر کے شہید ہوئے ۔
۔ ۱۱ ۔ غامر بن مسلم العبدی.
آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے شعیہ اور بصرہ کے رہنے والے تھے آپ کا پورا نام غامر بن مسلم عبدی المطری تھا آپ مکہ معظمہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ ہو گئے تھے اور تا دم آخر ساتھ ہی رہے ۔اپ کے ہمراہ آپ کا غلام سالم بھی تھا ، زیارت ناحیہ کی بناء پر آپ کا غلام بھی آپ کے ہمراہ ہی شہید ہو ا۔
۔۱۲ ۔ سیف ابن مالک العبدی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے ماریہ کے مکان پر جو خفیہ اجتماع ہوا کرتا تھا آپ اس میں شامل ہوا کرتے تھے۔ اپ نے مکہ میں امام علیہ السلام کی معیت اختیار کی اور جنگ ملغوبہ میں یوم عاشور کو شہید ہوئے ۔
۔۱۳۔ عبد الرحمان الارجبی
آپ قبیلہ بنو ہمدان کے شاخ بنوار جب کے چشم و چراغ تھے اپ کا پورا نام عبد الرحمن بن عبداللہ الکذن بن ارجب بن دعام بن مالک بن معاویہ بن صعب بن رومان بن بکیر الھمدانی الارجبی تھا۔ آپ اس دوسرے وفد کے ایک رکن تھے جو کوفے سے خطوط لے کے مکہ گئے تھے جبکہ آپ کے ہمراہ قیس اور 50 خطوط تھے ۔ یہ وفد12 رمضان کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا تھا ۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کے جناب مسلم علیہ السلام کے ہمراہ یہی عبد الرحمن ، قیس اور عمارہ شامل تھے ۔ عبد الرحمن جناب مسلم کو کوفے پہنچا کر واپس امام علیہ السلام کی خدمت میں مستقل شامل ہو گئے تھے اور عاشور کو امام علیہ السلام کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے ۔
۔ ۱۴، مجمع بن عبداللہ العامذی
آپ قبیلہ مذحج کے نمایاں فرد تھے ۔ آپ کو امیر المومنین علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے امام علیہ السلام مقام عذیب میں کوفے کے تمام حالات سے آگاہ کیا تھا اور کوفہ جانے والے امام کے آخری قاصد قیس ابن مہر کی گرفتاری اور انکی شہادت سے امام علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔آپ بھی جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ کچھ روایات نے آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عائذ بن مجمع کی شہادت بھی کربلا میں لکھی ہے ۔
۔۱۵۔حیان بن حارث السلمانی
آپ قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے ۔ مدینے سے کربلا جاتے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ ہوئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں امام علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔
۔۱۶۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی
جندع قبائل ہمدان کی ایک شاخ کا نام تھا آپ کربلا میں شامل لشکر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ علامہ مجلسی ، فاضل اربلی اور سپہر کاشانی نے اپنی کتابوں میں جنگ ملغوبہ کےبجائے میدان کارزار میں شہادت بیان کی ہے ۔ زیارت ناحیہ میں ورد آگین الفاظ کے ساتھ آپ پر سلام کیا گیا ہے ۔
۔۱۷۔ حلاس بن عمر الراسبی
آپ کوفہ کے رہائشی اور قبیلہ ازو کی شاخ راسب کی یادگار تھے اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار ہوتے تھے ۔ کوفہ سے عمر سعد کے لشکر کے ہمراہ آئے تھے اور جب آپ کو یقین ہو گیا کے صلح نہ ہو سکے گی تو شب عاشور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۱۸ ۔ نعمان بن عمر الراسبی
آپ بھی قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے اپ حلاس ازدی کے سگے بھائی تھے لشکر ابن سعد سے بغاوت کر کے شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔
۔۱۹۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی
آپ ھمدان کے رہنے والے تھے اور محرم کے مہینے میں امام علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے ۔ اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۲۰۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی
آپ قبائل ہمدان کی ایک شاخ بنی دالان کے ایک معزز فرد تھے اورآپ کو صحابی رسول صلی علیہ و آل وسلم اور صحابی امیر المومنین علیہ السلام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جنگ جمل ، صفین و نہروان میں حضرت امیر المومنین کے ساتھ رہے ۔ آپ بھی جنگ ملغوبہ میں شہیند ہوئے ۔
۔۲۱۔ زاہر بن عمر الکندی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی عمرو بن الحمق کے ساتھ ہر وقت ہمراہ رہتے تھے آپ نہایت زبردست پہلوان مشہور تھے اور عرب کے لوگ آپ سے متاثرتھے آپ حج کے لیے مکہ پہنچے اور پھر امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے۔ آپ مکہ سے کربلا امام علیہ السلام کے ہمراہ آئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کے پوتوں میں محمد بن سنان امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے روایوں میں شامل ہیں محمد ابن سنان کی وفات 220 ہجری میں ہوئی ۔
۔۲۲۔ جبلہ ابن علی الشیبانی
آپ جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہو گئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۳۔ مسعود بن حجاج التیمی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک تھے۔ آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے اور پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر جبگ ملغوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اپ کے ہمراہ اپ کے فرزند عبد الحمن ابن مسعود بھی شہید ہوئے تھے ۔
۔۲۴۔ حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی
اپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور آپ کا تعلق بنی سعد سے تھا آپ رئیس بصرہ مسعود بن عمر کا خط لے کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پھر واپس نہیں گئے ۔ اور یوم عاشور جنگ ملغوبہ میں امام علیہ السلام پر قربان ہو گئے ۔
۔۲۵۔ عبداللہ ابن بشر الخثعمی
آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے تھے اور اور صبح عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جنگ ملغوبہ میں شہید ہو کر شہداء میں شامل ہوئے ۔
۔۲۶۔ عمار ابن حسان الطائی
آپ امام عالی مقام علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے کربلا آئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے
۔۲۷۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی
آپ قبیلہ علیم کے چراغ تھے آپ پہلوانی میں بہت ماہر تھے اور کوفہ کے محلہ ہمدان کے قریب چاہ جعد میں رہتے تھے ۔ کوفہ سے اپنی زوجہ کے ہمراہ نکل کر امام کی لشکر میں شامل ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کی زوجہ ام وہب جب آپ کی لاش پر پہنچی تو شمر کے ایک غلام رستم نے اس مومنہ کے سر پر گرز کا وار کر کے ان کو بھی شہید کر دیا ۔ آپ کی زوجہ کو کربلا کی پہلی خاتون شہید کہا جاتا ہے ۔
۔۲۸۔ مسلم ابن کشیر الازدی:
آپ امام علیہ السلام کے کربلا پہنچنے سے قبل کسی مقام پر امام علیہ السلام کے ہمراہ شامل ہو گئے تھے اور صبح عاشور شہید ہوئے ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کے ایک غلام رافع ابن عبد اللہ بھی شامل تھے جو کربلا میں نماز ظہر کے بعد شہید ہوئے ۔
۔۲۹۔ زہیر ابن سیلم الازدی:
آپ قبیلہ ازد کے نمایاں فرد تھے اور شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ کو شامل لشکر ہوئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔
۔۳۰۔ عبداللہ بن یزید العبدی :
آپ اپنی قوم کے سردار اور کوفے میں ماریہ کےگھر جو اجلاس ہوتا تھا اس میں شرکت کرتے تھے آپ مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے اور کربلا میں اولین جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ آپ کے بھائی عبید اللہ اور والد گرامی یزید ابن ثبیط بھی مکہ سے ہم رکاب ہوئے اور عبید اللہ نے اولین اور بعد نماز جنگ میں والد نے شہادت پائی ۔
۔۳۱۔ بشر بن عمر الکندی :
آپ حضر موت کے رہنے والے تھے اور قبیلہ کندہ کے فرد تھے آپ بھی جنگ اولین میں شہید ہوئے ۔
۔۳۲۔ عبداللہ بن عروہ الغفاری :
آپ کربلا میں امام علیہ السلام سے آ کر ملے اور جنگ ملغوبہ میں شہادت پائی ۔
۔۳۳۔ بریر ابن خضیر الہمدانی :
آپقبیلہ بنو ہمدان کی شاخ بنو مشرق کی عظیم شخصیت تھے ۔ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور مکہ سے اما علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے ۔ شب عاشور پانی کی جدوجہد میںجو کارنامہ کیا ہے وہ تاریخ میں سونے کے حروف سے رقم ہے ۔ آپ کا شب عاشور پانی لانا وہ واقعہ تاریخ میں رقم ہے ۔ مائتین صفحہ 316-323 ۔ یوم عاشور سب سے پہلا گریہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا وہ آپ کی کی جسد خاکی پر کیا تھا “ان بریر امن عباد اللہ الصالحین “” ہاے بریر ہم سے جدا ہو گئے جو خدا کے بہترین بندوں میں سے ایک تھے ”
۔۳۴۔ وہب ابن عبداللہ الکلبی:
یہ حسینی بہادر نصرانی تھا اور کسی سفر میں اپنی بیوی اوروالدہ کے ہمراہ جا رہا تھا امام علیہ السلام کے نصرت کے لیے رکا اور اسلام قبول کیا اور کتاب ذکر العباس میں تفصیل سے موجود ہے ۔ آپ نے 24 پیادے ۔ قتل کیے اور آپ کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ آپ کی لاش پر گئیں اور اسی دوران شمر کے حکم پر اسک کے غلام رستم نے اپ کو بھی شہید کر دیا ۔ بعض مورخین نے آپ کی زوجہ کو پہلی خاتون شہید لکھا ہے ۔ روایت ہے کے اپ کا سر کات کے خیام حسینی کی طرف پحینکا گیا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان کی طرف پحینک دیا اور فرمایا ” ہم راہ مولا علیہ السلام میں جو چیز دے دیتے ہیں اس واپس نہیں لیتے ۔”روایت ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی 2 دشمنوں کو واصل جہنم کیا تھا ۔۔ دمعہ ساکبہ ص 331 ، طوفان بکا13
۳۵۔ ادہم بن امیتہ العبدی
آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ میں سکونت اختیار کی تھی ۔ ماریہ کے مکان پر ہونے والے تمام اجلاسوں میں شریک ہوئے ۔ ایک دن یزید بن ثبیط نے کہا کے میں امام علیہ السلام کی امداد کے لیے مکہ جا رہا ہوں ۔ آپ نے کہا کے میں بھی ساتھ چلوں گا ۔ آپ مکہ پہنچے اور یوم عاشور اپنی جان عزیز امام علیہ السلام پر قربان کر کے امر ہو گئے ۔
۔۳۶۔ امیہ بن سعد الطائی
آپ کوفے میں رہتے تھے جب آک کو علم ہوا کے مام حسین علیہ السلام کربلا پہنچح گئے ہیں تو آپ فی الفور کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گئےاور یوم عاشور کمال جذبہ قربانی کے پیش نظر امام علیہ السلام اور اسلام پر قربان ہو گئے ۔
۔۳۷۔سعد ابن حنظلہ التمیمی
آپ کے بیشتر حالات تاریخ میں موجود نہیں ہیں مگر ایک جملہ موجود ہے کہ آپ نہایت بے جگری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فناکے گھاٹ اتار کر میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا۔
۔۳۸۔ عمیر ابن عبداللہ المد حجی
جناب سعد ابن حنظلہ کی شہادت کے بعد آپ میدان میں آئے اور کمال بے جگری سے لڑ کر بالاخر مسلم صبانی اور عبداللہ بجلی نے آپ کو شہید کیا ۔
۔۳۹۔ مسلم بن عوسجہ الاسدی
آپ کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ 24 ہجری میں فتح آذربائیجان میں حذیفہ یمان کے ہمراہ جو کارنامے انجام دءے وہ تاریخ میں موجاد ہیں ۔ نو محرم کی شام میں امام علیہ السلام کا وہ خطبہ جس میں امام علیہ السلام نے جب انصار اور احباب سے واپس جانے کو کہا تھا تو اعزاء کی طرف سے حضرت عباس علمدار علیہ السلام اور انصار کی طرفجناب مسلم بن عوسجہ نے کہا تھا ” کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ہم اگر سار عمر مارے جائیں اور جلا بھی دئے جائیں تب بھی آپ کی معرفت اور ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی خدمت میں شہادت ، شہادت عظیم ہے۔”
شب عاشور جب خندق کے گرد آگ جلانے پر لشکر کفار سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہی اسکا منہ توڑ جواب دیا تھا۔
جب آپ مسلم بن عبداللہ اور عبداللہ بن خشکارہ بلخی کے ہاتھوں شہید ہوئے تو شبت ابن ربعی اگر چہ دشمن تھابولا ” افسوس تم ایسے شخص کے مرنے پر خوشی کر رہے ہو جس کے اسلام پر احسانات ہیں جس نے جنگ آزربائیجان میں مشرکوں کی کمر توڑ دی تھی “
آپ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند میدان میں آءے اور 30 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔
۔۴۰۔ ہلال ابن نافع البجلی
آپ کی پرورش امیر المومنین علیہ السلام نے کی تھی ۔ تیر اندازی میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اور عادت تھی کی تیروں پر اپنا نام کندہ کر کے استعمال کرتے تھے ۔ شب عاشور امام علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور موقعہ جنگ کا معائنہ کیا ۔ ترکش میں موجود 80 تیروں سے 75 دشمنوں کو قتل کیا اور اسکے بعد تلوار سے 13 کو واصل جہنم کیا ۔ اور پھر کفار کی طرف سے اجتماعی حملے میں شہید ہوئے ۔
۔۴۱۔ سعید بن عبداللہ الحنفی
آپ کوفے کی نامی گرامی اشخاص میں تھے ۔ اور میدان کربلا میں بوقت نماز ظہر جب دوران جماعت دشمنوں نے تیر اندازی شروع کی تو آپ امام علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ایک بھی تیر امام کی طرف آنے نہ دیا تا اینکہ شہید ہو گئے ۔
۔۴۲۔ عبد الرحمن بن عبد المزنی
آپ نہایت سعید اور محب آل محمد تھے یوم عاشور اذن جنگ حاصل کر کے میدان میںآئے اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے ۔
۔۴۳۔ نافع بن ہلال الجملی
آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے جمل ، نہروان ،اور صفین میں شر کت کی ۔ کربلا میں سعی آب کی کوششوں میں علمدارکربلا کے ساتھ شریک ہوئے ۔ 12 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے۔
۔۴۴۔ عمر ابن قزظتہ الانصاری
آپ مدینہ سے آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئے تھے اصحاب امیر المومنین میں شامل تھے ۔ میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے پیغامات عمر بن سعد تک پہنچایا کرتے تھے ۔ آپ نے بہت بے جگری سے جنگ لڑی اور با لا خر شہید ہو کر راہ حق میں کامیاب ہوئے ۔
۔۴۵۔ جون بن حوی غلام الغفاری
آپ جناب ابوزر غفاری کے غلام تھے ۔ جون پہلے امام حسن علیہ السلام کی خدمت کرتے تھے اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے خدمت میں مصروف ہو گئے ۔آپ امام علیہ السلام کے ہمراہ مکہ سے مدینہ اور کربلا آئے ، عاشورہ کے دن آپ پہلے فرد ہیں جن کو امام علیہ السلام نے کئی بار ازن شہادت طلب کرنے کا با وجود منع فرمایا اور کہا ” جون مجھے پسند نہیں کہ میں تم کو قتل ہوتا دیکھوں “ پھر جون کا وہ جملہ جو تاریخ میں مرقوم ہے ” مولا میرا پسینہ بدبودار ، حسب خراب اور رنگ کالا ہی سہی لیکن عزم شہادت میں کوئی خامی نہیں ہے۔ مولا بہرا خدا اجازت عطا کریں تا کہ سرخ رو ہو سکوں۔”۔ ازن ملنے کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو امام علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ ” پروردگار ان کے پسینے کو مشکبار رنگ کو سفید اور حسب کو آل محمد کے انتساب سے ممتاز کر دے “ روایت ہے کہ دعا ختم ہوتے ہیں جون مثل گلاب اور پسینہ انتہائی معطر ہو گیا تھا۔
۔۴۶۔ عمر ابن خال الصیدادی
آپ کوفہ سے نکل کر مقام عذیب پر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوم عاشورہ کو عروس شہادت ہے ہم کنار ہوئے ۔
۔۴۷۔ حنظلہ ابن اسعد الشبامی
آپ امام علیہ السلام کے پاس کربلا میں پہنچے تھے اور بہت جواں مردی کے ساتھ جنگ کر کے شہید ہوئے ۔
۔۴۸۔ سوید ابن عمار الاتماری
آپ بڑے شجاع اور آزمودہ کار زار تھے آپ کو میدان کربلا میں عروہ بن بکار اور یزید بن ورقا نے شہید کیا۔
۔۴۹۔یحیی بن سلیم امازنی
آپ شب عاشور بریر ہمدانی کے ساتھ پانی کے لیے کی جانے والی کوشش میں شریک تھے اور۔ یوم عاشور کو امام علیہ السلام کے انصاروں کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے ۔
۔۵۰۔ قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری
آپ نہایت شریف اور جانباز تھے ۔ یوم عاشور امام علیہ السلام سے اجازت حاصل کرنے کے بعد دشمن پر اتنی بے جگری سے حملے کیے کہ اند کے دانت کھٹے کر دئے ۔ آپ رجز پڑھتے اور حملے کرتے یہاں تک کے شہید ہو گئے۔
۔۵۱۔ مالک ان انس المالکی
آپ کا نام انس بن حرژ بن کاہل بن عمر بن صعب بن اسد بن حزیمہ اسدی کاہلی تھا ۔ آپ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے صحابی اور راوی حدیث بھی ہیں ۔ آپ کوفہ سے نکل کے امام علیہ السلام کی بارہ میں کربلا میں حاضر ہوئے ۔ آپ نہایت کبیر السن تھے ۔یو یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے شہید ہوئے۔
۔۵۲۔ زیاد ابن غریب الصائدی
آپ کی کنیت ابو عمرۃ تھی ۔ اپ بنی ہمدان کی شاخ بنی حائد کی چراغ تھے۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔ آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا۔
۔۵۳۔ عمر بن مطاع الجعفی
۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔
۔۵۴۔ حجاج ابن مسروق المدحجی
آپ کا شمار انصار امیر المومنین علیہ السلام میں ہوتا تھا ۔ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کا سن کر آپ بھی کوفہ سے عازم سفر ہوئے اور منزل قصر بنی مقاتل میں شرف ملاقات حاصل کیا اور ، 15 دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد واپس امام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے واپسی پر آپ کا غلام ” مبارک ” بھی ہمراہ ہو گیا دونوں نے کمال کی جنگ کی اور 150 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے
۔۵۵۔ زہیر ابن قین ابجلی
آپ کوفہ کے رہائشی تھے پہلے عثمانی بعد میں حسینی علوی ہو گئے ۔ حج سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپسی پر امام علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے ۔ امام کے لشکر میں شامل ہونے کے بعد اپنی زوجہ کو طلاق دے کے واپس بھیج دیا اور خود شیہد ہو گئے۔ روایت ہے کہ شب عاشور جب ایک رات کی مہلت لینے کے لیے علمدار کربلا گئے تحے تو آپ بھی ان کے ہمراہ گئے تھے ۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کے میمنہ کی سربراہی بھی جناب کو ہی عطا کی گئی تھی۔ آپ ناے 120 افراد کو قتیل کر کے جام شہادت نوش کیا ۔
۔۵۶۔ حبیب ابن مظاہر الاسدی
آپ صحابی رسول صلی علیہ و آلہ وسلم تھے اور امام علیہ السلام کے بچپن کے دوست تھے ۔ آپ کاایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ نے ۳ اماموں علیہ السلام اجمعین کی صحبت کو شرف حاصل کیا ۔ روایت ہے کہ مقام زرو پر امام نے اپ کی آمد کا انتظار کیا ۔ اور میسرہ کی کمان آپ کے سپرد کی ۔ یوم عاشور آپ نے 62 دشمن واصل نار کیے اور بدیل ابن حریم عفقائی کی تلوار کی ضرب سے گھائل ہئوے اور حصین بن نمیر نے تلوار جو آپ کے سر مبارک پر لگی شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ آپ کا قاتل ابن زیاد سے 100 درہم کا انعام لے کے اور آپ کا سر مباک گھوڑے کی گردن میں لٹکا کر مکہ پہنچا جہان حبیب کے ایک فرزند نے اس کو قتل کر کے آپ کا سر مبارک مقام معلی میں جو اب ” راس الحبیب ” کے نام سے مشہور ہے دفن کر دیا ۔
۔۵۷۔ ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی
آپ نماز ظہر کے لیے عین ہنگامہ کارزار میں امام علیہ السلام جب امامت فرما رہے تھے ۔ آپ نے امام علیہ السلام کی حاظت کرتے ہوئے ۔ کمال دلیری سے شمشیر زنی کی اور اپنے چچا زاد بھائی قیس ابن عبداللہ انصاری کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۵۸۔ انیس بن معقل الاصبحی
آپ آلمحمد علیہ السلام کے جانثاروں میں سے تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے ۔
۔۵۹۔۔ جابر ابن عروۃ الغفاری
آپ صحابی رسول تھے ۔ اور کافی غزوات میں شریک ہوئے ۔ آپ نہایت ضعیف تھے ۔ جنگ پر جانے سے قبل اپ نے عمامہ سے اپنی کمر اور ایک کپڑے سے اپنے پلکوں کو اٹھا کر باند لیا تھا ۔ غضب کا معرکہ لڑا اور 60 افراد کو قتیل کر کے شہید ہوئے۔
۔۶۰۔ سالم مولی عامر العبدی
آپ بصر کے رہنے والے تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے ۔ اور کربلا میں شہید ہوئے ۔
۔۶۱۔ جنادہ ابن کعب الخزرجی
آپ قبیلہ خزرج کی یادگار تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے۔ 18 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔
۔۶۲۔ عمر بن جنادۃ النصاری
آپ جنادہ ابن کعب کے فرزند اور کم تھے باپ کی شہادت کے بعد والدہ نے آپ کو تیار کر کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کیا امام نے کہا ” ابھی تمہارا پاب شہید ہوا میں تم کو اجازت نہیں دے سکتا” تو آپ کی والدہ نے امام علیہ السلام امام کی قدم بوسی کی اور اجازت طلب کی ۔ امام علیہ السلام سے اجازت لے کر میدان میں گئے اور شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ قاتل نے سر کاٹ کر خیام کی طرف پھینکا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان میں پھینک دیا جو قاتل کی سینے پر لگا اور وہ وہیں واصل جہنم ہو گیا ۔
۔۶۳۔ جنادہ بن الحرث السلمانی
اپ کوفہ کے رہائشی تھے اور امام علیہ السلام سے راستے میں ملاقات کر کے شامل ہوئے ۔ کربلا میں میدان جبگ میں ظہر سے قبل شہید ہوئے ۔
۔۶۴۔ عابس ابن شبیب الشاکری
آپ قبیلہ بنو شاکر کی یادگار تھے اور یہ وہی قبیلہ ہے جس کی بابت امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ صفین میں فرمایا تھا ” اگر بنو شاکر کے 1000 افراد موجود ہوں تو دینا میں اسلام کے علاہ کوئی اور مذہب نہ ہو۔ ” یوم عاشور پر جب میدان میں آ کر مبازر طلب کیا تو کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ بالاخر آپ پر اجتماعی پتھراو کیا گیا اور سب نے مل کر حملہ کیا جس سے آپ شہید ہوئے ۔
۔۶۵۔ شوذب ابن عبداللہ الہمدانی
آپ عابس الشاکری کے غلام تھے اور بلا کے جری تھے ۔ آپ بھی اپنے مالک کے ہمراہ میدا کربلا میں شہید ہوئے ۔
۔۶۶۔ عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری
آپ کوفہ کے رہائشی تھے اور میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے نصرت اور تائید میں شہید ہوئے ۔
۔۶۷۔ حرث ابن امرو القیس الکندی
آپ سبھ عاشور لشکر ابن سعد سے نکل کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے اور جام شہادت نوش کیا ۔
۔۶۸۔ یزید ابن زیاد الہدلی
آپ کی کنیت ابو الشعشا تھی ۔آپ اپنی قوم کے سردار اور فنون جنگ میں طاق تھے ۔آپ میدان کربلا میں بے جگری سے لڑے تو دشمنوں نے آپ کے گھوڑے کے پیر کاٹ دیے اس وقت آپ کے ترکش میں 100 تیر تھے آپ نے ہر تیر سے ایک فرد کا واصل نار کیا ۔ تیر ختم ہونے کے بعد تلوار بازی کی اور نیزہ لگنے سے گھائل ہوئے ۔ اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔
۔۶۹۔ ابو عمرہ النہثلی
آپ میدان کربلا کی انفرادی جنگ میں شہید ہوئے آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا
۔ ۷۰۔ جندب بن حجیر الخولانی الکندی
آپ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور کوفی سے نکل کر لشکر حر کی آمد سے پیشتر امام علیہ السلام کی کدمت میں حاضر ہوئے ۔ یوم عاشورہ کو حمایت فرزند رسول علیہ السلام میں جنت کے حقدار ہوئے ۔
۔۷۱۔ سلامن بن مضارب الانماری
آپ زہیر ابن قین کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مکہ سے امام علیہ السلام کے ہمرکاب ہوئے اور یوم عاشور بعد نماز ظہر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔
۔۷۲۔ مالک ابن عبداللہ الجابری
آپ یوم عاشورہ سے چند یوم پہلے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ۔ آپ کی شہادت پر امام نے وہ ایک جملہ کہا جو تاریخ میں محفوظ ہے “ اے میرے وفادار بہادروں ۔ تم میرے نانا کی خدمت میں چلو میں تمہارے پیچھے آ رہا ہوں “
شہدائے اٹھارہ بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین ( مفصل احوال )
کارزار کربلا میں امام علیہ السلام کے اصحاب با صفاء اور موالیان باوفا کی شہادت کے بعد امام علیہ السلام کے اعزاء و اقرباء ، برادران ، اور اولاد نے راہ اسلام میں عظیم اور لازوال قربانیاں دیں اور اسلام کو سدا بہار بنا دیا ۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سواء کیا ہے
ایک ضرب ید اللہ ایک سجدہ شبیری
۔۱۔ عبداللہ ابن مسلم
آپ حضرم مسلم علیہ السلام کے فرزند اور امام علیہ السلام کے بھانجے اور امیر المومین علیہ السلام کے نواسے تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ رقیہ بنت علی علیہ السلام اور نانی کا نام صہبا بنت عباد ۔ آپ کی والدہ قبیلہ بنی ثعلبتہ کی فرد اور کنیت ام حبیبۃ تھی۔آپ آٹحارہ بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں اپ نے 90 دشمنوں کو واصل نار کیا اور دوران جنگ عمر ابن صبیح صیدادی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا جس کو روکتے ہوئے وہ آپ کا ہاتھ پیشانی میں پیوست ہو گیا ۔ اس نے دوسرا تیر آپ سے سینے پر ماری جس سے آپ نے شہادت پائی ۔
۔۲۔ محمد ابن مسلم
آپ بھائی کو زخمی دیکھ کر امام علیہ السلام سے ازن شہادت لے لر میدان میں گئے اور گمسان کی جنگ کی آپ کا ابوجرہم ازدی اور لقیط ابن ایاش جہمی نے شہید کیا ۔
۔۳۔ جعفر ابن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اور آپ کی والدہ “حوصا” بنت عمرہ بن عام بن حسان بن کعب بن عبد بن ابی بکر ابن کلاب عامری اور آپ کی نانی ریطہ بنت عبداللہ بن ابی بکر تھیں۔ میدان جنگ میں 15 دشمنوں کو قتل کر کے بشر ابن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔۔
۔۴۔ عبد الرحمان بن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 17 دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد ابن اثیم اور بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۵۔ عبداللہ ابن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں بہت سے دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد کے ہاتھون شہید ہوئے
۔۶۔ موسی ابن عقیل
آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 70 دشمنون کو قتل کر کے سرور کائنات کی بارگاہ میں پہنچے ۔
۔۷۔ عون بن عبداللہ بن جعفر طیار
آب جناب عبداللہ کے فرزند اور حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے نواسے آپ کی والدہ زینب کبری علیہ السلام اور نانی جناب خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ تھیں جناب عبداللہ ابن جعفر علالت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں دے دیا تھا اور امام علیہ السلام پر جانثاری کی ہدایت کر کے چلے گئے تھے۔ جناب عون کے رجز کے اشعار نے اشقیا کے دل دہلا دِے تھے ۔ آپ نے 30 سوار ، 18 پیادے قتل کئے اور عبدا بن قطنہ نبھانی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۸۔ محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار
آپ جناب عون کے بھائی اور اور 10 دشمنوں کا قتل کرنے کے بعد عامر بن نہشل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۹۔ عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام حسن علیہ السلام کے بڑے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو بکر تھی آپ کی والدہ گرامی کا نام جناب “رملہ ” اور کچھ روایات کے مطابق ” نفیلہ” تھا۔ میدان کربلا میں 80 آدمیوں کو قتل کرنے کےبعد عبداللہ بن عقبی غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۱۰۔ قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام حسن علیہ السلام اور جناب رملہ کے فرزند تھے آپ نہایت جری تھے ارزق شامی جیسے نامی گرامی پہلوان کو میدان کربلا میں قتل کیا ۔ اور جب دشمنوں سے زیر نہ ہوئے تو سب نے اچانک چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا اور عمیر بن نفیل ازدی کے وار سے گھائل ہوئے ۔ گھوڑے سے گرنے کے بعد زندہ ہی پامال سم اسپاں ہو گئے ۔
۔۱۱۔ عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب
آپ مام حسن علیہ السلام کے فرزند اور والدہ بنت شلیل بن عبداللہ بجلی تھیں آپ کے نانا صحابی رسول تھے کربلا میں سب بلوغ تک نہ پہنچے تھے مگر شجاعت بے مثال کے مالک تھے 14 دشمنوں کو قتل کر کے بدست ہانی ابن شیت خضرمی شہیند ہوئے ۔
۔۱۲۔ عبداللہ بن علی ابن ابی طالب
آپ علمدار کربلا کے حقیقی بھائی اور فرزند جناب ام البنین اور امیر المومنین علیہ السلام تھے ۔کربلا میں ہانی بن ثبیث حضرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۔۱۳۔ عثمان بن علی ابن ابی طالب
آپ بھی علمدار کربلا کے بھائی تھے آپ کی عمر 23 برس تھی اور میدان کربلا میں خولی شقی کے تیر سے گھائل ہوکر زخمی ہوئے اور قبیلہ ابان بن وارم کے ایک شخص کی تلوار سے شہید ہوئے ۔
۔۱۴۔ جعفر بن علی ابن ابی طالب
آپ کی عمر 21 برس اور میدان کربلا میں ہانی ابن ثبیث کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
۱۵۔ علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب ۔
ان بہادران بنی ہاشم کی شہادت کے بعد علمدار کربلا نے ازن شہادت طلب کیا مگر امام علیہ السلام نے ازن جنگ نہ دیا اور فرمایا کہ اطفال کے لیے پانی کا بندوبست کرو آپ مشکیزہ اور علم لے کے میدان میں گئے ، جنگ کی اجازت نہ ملنےکے باوجود آپ کی ہیبت سے لشکر میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ آپ نے پانی پر قبضہ کیا مشک بھری اور واپس ازن خیام ہوئے ۔ جب لشکر نے دیکھا کہ آپ بغیر تلوار کے ہیں تو آپ پر حملہ کیا اور پانی کی مشک بچاتے ہوئے آپ کا داہنا ہاتھ زیند بن ورقا کی تلوار سے قلم ہوا ۔ بایاں ہاتھ حکیم ابن طفیل نے قلم کیا مشکیزے پر تیر لگنے سے سارا پانی بہہ گیا اور ایک تیر آپ کی سینے پر لگا۔آپ کی شہادت پر امام علیہ السلام نے فرمایا ” ہائے میری کمر ٹوٹ گئی” آپ کو کمال حسن کی وجہ سے قمر بنی ہاشم بھی کہا جاتا ہے مشہور القاب ” سقہ ” ، ابو قریہ ہیں شہادت کے وقت آپ کی عمر 34 برس تھی۔
۔۱۶۔ علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام علیہ السلام کے منجھلے بیٹے تھے امیر المومنین علیہ السلام اور جناب خاتون جنت سلام اللہ علیھا کے پوتے تھے ۔ اپ کی والدہ کا نام ” ام لیلی ” تھا۔آپ صورت اور سیرت میں پیغمبر اسلام کے مشابہ تھے آپ کا نام علی ابن حسین ۔ کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا۔ آپ نے میدان کربلا میں120 دشمنوں کو قتل کیا اور منقذ ابن مرہ عبدی نے آپ کے گلوئے مبارک پر تیر مار اور ابن نمیر ناے سینہ اقدس پر نیزے کا وار کیا ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 18 برس تھی ۔
۔۱۷۔ محمد بن ابی سعید بن عقیل
آپ جناب عقیل کے فرزند اور نہایت کم سن تھے جناب علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ چوب خیمہ لے کر باہر نکلے اور امام علیہ السلام کی طرف رخ کیا ابھی آپ امام علیہ السلام کے نزدیک بھی نہیں پہنچے تھے کہ نفیظ ابن یاسی نے آپ پر تلوار کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے ۔
۔۱۸۔ علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب
آپ امام علیہ السلام کے کمسن ترین فرزند اور ۱۰ رجب سن 60 کو پیدا ہوئے آپ کی والدہ کا نام رباب بنت امرہ القیس بن عدی بن اوس تھا۔ یوم عاشور کو جب امام علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند کی تو آپ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔ امام علیہ السلام جب بے شیر شہزادے کہ لے کر میدان میں گئے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی اور لشکر بے قابو ہونے لگا اور ابن سعد نے حرملہ کو حکم دیا کاے تیر سہہ شعبہ استعمال کرو۔ اس لعین نے گلوئے صغیر کو تاکا اور تیر کمان سے چھوڑ دیا تیر کا لگنا تھا کہ شش ماہہ امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر منقلب ہو گئے ۔ امام علیہ السلام نے خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی طرف پھر زمین کی طرف پھینکنا چاہا مگر دونوں نے اس خون نا حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بالاخر آپ علیہ السلام نے اس لہو کو اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا ، اور فرمایا کہ ” اسی حالت میں اپنے نانا کی بارگاہ میں جاوں گا “
انکار آسمان کو ہے راضی زمیں نہیں
اصغر تمہارے خون کا ٹھکانا کہیں نہیں
تاجدار انسانیت سید الشہداء جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت
جب آپ علیہ السلام کا کوئی معین اور مددگار باقی نہ رہا تو آپ خود میدان کارزار میں آئے آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر 1951 زخم آئےاور آپ زمین پر اس طرح تشریف لائے کے آپ علیہ السلام نہ تو زین پر تھے اور نہ زمین پر ۔ نماز عصر کا وقت آ چکا تھ اآپ سجدہ خالق میں گئے تو شمر ملعون نے کند خنجر سے آپ کا سر مبارک جدا کر دیا ۔
یہ واقعہ یہ عظیم قربانیاں 10 محرم سن 61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی بروز جمعہ اس دنیا میں وقوع ہوا۔ اور دین اسلام کی لازوال تاریخ رقم کر گیا ۔
مجاہد فی سبیل اللہ ایسے کم نظر آئے
قیامت ہو جنہیں اک اک گھڑی شوق شہادت میں
حوالہ کتب ۔
ریاض الشہادت ،سیرآلائمہ،ناسخ التواریخ ،زیارت ناحیہ ،ابصار،اسرار شہادت ،قمقام ،دمعہ ساکبہ،روضتہ الشہداء ،نور العین ، مقاتل الطالبین ، مجالس مفجعہ ، زکر العباس،
آخر میں دعا گو ہوں کہ پردودگار ہماری اس قلیل سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے اور ہم سب پر اپنا رحم اور کرم نازل کرے اور ہم کو راہ حق پر استوار رکھے۔