ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس اور والدہ کا ام صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف تھا جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں۔ گویا حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش کے مطابق ’’ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں یوں رقمطراز ہے کہ
’’ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ابوسفیان صخر بن حرب کی عمر33 سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کی پیدائش واقعہ فیل کے تئیس سال بعد ہوئی۔
(ص:191)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کی خبر ان کے والد حضرت ابوسفیان کو جونہی ملی آپ کے تاثرات کو نواز رومانی اپنی تصنیف ’’ازواج الرسول امہات المومنین‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
گھر میں کئی عورتیں موجود تھیں ابوسفیان سیدھا اندر گیا جہاں اس کی بیوی صفیہ اپنی نومولود بیٹی کے ساتھ موجود تھی وہ بچی کی طرف دیکھنے لگا۔ صفیہ خاوند کے چہرے پر ابھرنے والے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہی تھی۔ میرا دل کہتا ہے یہ بہت مبارک بچی ہے۔ صفیہ نے کہا: ہوں! ہاں ہاں ابو سفیان خیالات سے چونکا بھولپن کے ساتھ اس کے چہرے میں عجیب طرح کا نور جھلک رہا ہے یقینا یہ بچی میرے سب خاندان کے لئے باعث رحمت ثابت ہوگی۔
(صفحہ 478۔ 479)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جن کا نام ان کے والد نے رملہ رکھا تھا اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھیں۔ وہ ان کی تمام تر خواہشات کو پورا کرتے تھے اور ان کی چھوٹی سی تکلیف پر بھی دونوں پریشان ہوجاتے تھے لیکن بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو ان کے لئے ایک اچھے رشتے کی بھی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ لہذا عبیداللہ بن جحش کے رشتے پر دونوں ماں باپ نے نہایت خوشی کا اظہار کیا۔
عیبداللہ بن جحش کے والدین کو جیسے ہی ابوسفیان کی بیٹی رملہ کے جوان ہونے اور دوسرے لوگوں کے رشتے بھیجنے کی اطلاع ملی تو انہیں بھی اپنے خوبصورت، نڈر اور نیک سیرت بیٹے کا رشتہ تمام سے موزوں و مناسب اور بہتر و برتر محسوس ہوا۔ لہذا اس لئے ہاں کردی۔ یوں ابوسفیان (جو ابھی مرتد تھا) کی چاند سی بیٹی رملہ کی شادی جحش بن رباب اور عبدالمطلب کی بیٹی امیم کے قابل فخر بیٹے عبیداللہ بن جحش کے ساتھ بڑے تزک و احتشام اور دھوم دھام سے ہوئی جس میں عرب کے تمام سرداران قبائل نے شرکت کی۔ تمام اکابرین اور زعماء بھی شریک ہوئے۔
(پرویز، پروفیسر خالد، امہات المومنین، ص264)
کم عمری سے ہی عبیداللہ بن جحش تلاش حق میں اپنے تین ساتھیوں ورقہ بن نوفل، عثمان بن حویرث اور زید بن عمرو نفیل کے ساتھ نکلے مگر تینوں ساتھی عبیداللہ بن جحش سے بڑے تھے لہذا تھوڑے تھوڑے عرصے کے فاصلے سے اپنے معبود حقیقی سے جاملے لیکن عبیداللہ بن جحش متواتر تلاش حق میں سرگرداں رہے اور بالآخر دین ابراہیم کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ آقا علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کردیا تھا کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت وامانت تمام مکہ میں مشہور تھی۔ اس بناء پر وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضری کے لئے گھر سے حبشہ کی جانب نکلے۔
نواز رومانی اپنی تصنیف ’’ازواج الرسول امہات المومنین‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفقاء و عشاق کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے۔ عبیداللہ اور رملہ کو آتے دیکھا تو چہرہ اقدس پر بشاشت نمودار ہوئی وہاں تشریف فرما حضرات نے راستہ دے دیا، دونوں قدموں کے قریب جاکر بیٹھ گئے۔ کیسے آئے ہو؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک لبوں کو جنبش دی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! صدہا مقام شکر و امتنان ہوگا اگر ہمیں اپنی غلامی میں قبول فرمالیں۔ کس کی بیٹی ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رملہ سے دریافت کیا۔ ابوسفیان صخر بن حرب کی۔ رملہ نے عرض کیا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سن کر بے حد خوشی ہوئی اور پھر دونوں میاں بیوی کلمہ شہادت پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ وہاں موجود حاضرین کی بھی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
(صفحہ نمبر 485۔ 486)
قبول اسلام کے بعد دونوں میاں بیوی نے 6 بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبشہ ہجرت کی وہاں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ زندگی نہایت خوش و خرم گزر رہی تھی لیکن کچھ عرصے بعد آپ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا۔
ڈاکٹر ذوالفقار کاظم اپنی تصنیف ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا میں یوں رقمطراز ہیں:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے خاوند عبیداللہ بن جحش کا چہرہ بری طرح مسخ ہوچکا ہے۔ جب آنکھ کھلی تو بہت پریشان ہوئیں چند دن بعد عبیداللہ بن جحش نے اپنی بیوی سے کہا، دیکھو میں پہلے نصرانی تھا پھر میں نے اسلام قبول کیا۔ یہاں حبشہ میں آکر میں نے محسوس کیا کہ نصرانیت ہی سب سے بہتر ہے لہذا میں نے دوبارہ نصرانیت اختیار کرلی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم بھی نصرانیت قبول کرلو۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہے۔ سیدہ رملہ بنت سفیان (ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ) نے خاوند کو اپنا خواب سنایا کہ شاید وہ ڈراؤنا خواب سن کر اپنے ارادے سے باز رہے۔ اس نے کوئی پرواہ نہیں کی بلکہ شراب نوشی شروع کردی۔ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بہت پریشان ہوئیں کہ اب کیا ہوگا۔ دیار غیر میں اللہ تعالیٰ سے صبر و استقامت کی دعا مانگی، کچھ عرصے بعد کثرت شراب نوشی کی وجہ سے عبیداللہ بن جحش فوت ہوگیا۔
(صفحہ 193)
اس کٹھن دور میں آپ رضی اللہ عنہا کے پاس حبشہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا اور لیلیٰ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم المرتبت خواتین سمیت 16 خواتین رہیں جنہوں نے آپ رضی اللہ عنہا کو دلاسہ دیا لیکن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنا زیادہ تر وقت یاد الہٰی میں صرف کرنے لگیں۔ مسند احمد میں بیان ہے کہ
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ چنانچہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بعد ساری زندگی کبھی ان نوافل سے ناغہ نہیں کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا کے صبرو استقامت اور دین اسلام پر قائم رہتے ہوئے یاد الہٰی میں مشغول رہنے کے سبب رب کریم نے خواب میں انہیں ام المومنین ہونے کی خوشخبری عطا کی۔
پروفیسر خالد پرویز اپنی تصنیف امہات المومنین میں یوں رقمطراز ہیں:
آپ رضی اللہ عنہا ایک رات محو استراحت تھیں کہ خواب دیکھتی ہیں کہ کسی نے آپ کو ام المومنین کہہ کر پکارا ہے۔ آنکھ کھلی تو طبیعت پر خوش گوار اور دل پذیر اثرات مرتب ہوئے۔ رگ و پے خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی اور انگ انگ انبساط سے بھرگیا۔ ان دنوں سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرچکے تھے۔ اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔ ایک روز کسی نے رسول رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حبشہ میں آباد مہاجرین کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوسفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا انتہائی مشکل اور کٹھن حالات سے دو چار ہے۔ رئیس خاندان کی چشم و چراغ کسمپرسی کے دن گزار رہی ہے۔ اس کا قصور محض اتنا ہے کہ اس نے دین اسلام کو دل و جان سے قبول کرلیا ہے۔ خاوند مرتد ہوکر فوت ہوگیا ہے۔ گود میں ایک چھوٹی سی بچی ہے لیکن صبرو استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کررہی ہے، رشتہ دار بھی اس کی خبر نہیں لیتے کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ وہ ہماری امداد اور اعانت کی مستحق ہے۔ رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی حالت زار کے بارے میں سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مدد اور داد رسی کے لئے بے نظیر و بے مثال ترکیب سوچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہا کو شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں ایک مراسلہ دے کر روانہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مراسلے میں لکھا تھا کہ اگر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا پسند کرے تو اس کا نکاح میرے ساتھ کردیا جائے۔
(ص:271 تا 272)
وہ مزید یوں لکھتے ہیں:
جس روز صبح کے وقت حضرت ام حبیبہ کے پاس کنیز ابرہہ کو بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا مندی حاصل کی گئی اسی روز شام کے وقت حبشہ کے بادشاہ اصحمہ نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب کو پیغام دیا کہ اپنے تمام مسلمان احباب کو لے کر میرے پاس تشریف لائیں۔ جب شام ہوئی تو حسب دعوت تمام پناہ گزیں مسلمان شاہی محل میں جمع ہوگئے۔ اس وقت ایک عجیب سماں تھا۔ بادشاہ نجاشی خوشی کے مارے پھولا نہیں سماتا تھا کہ اس کے دربار میں دو جہانوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اس کے ہاتھوں انجام پذیر ہورہا تھا۔ اس کے لئے یہ بہت بڑی خوش بختی تھی کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وکیل کی حیثیت سے تاریخ کی بہت بڑی سعادت سے فیض یاب ہورہا تھا۔ (صفحہ 273 تا 274)
ڈاکٹر ذوالفقار کاظم اپنی تصنیف ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا میں یوں رقمطراز ہیں:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اظہار تشکر کے طور پر کنیز ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور انگوٹھیاں انعام میں دیں۔ (صفحہ نمبر195)
آپ رضی اللہ عنہا، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ نہایت خوش و خرم زندگی بسر کررہی تھیں لیکن چودہ سال کے عرصے کے بعد رب قادر نے باپ سے بیٹی کو ملوایا۔ بیٹی نے اپنے باپ کو حجرے میں آنے کی دعوت دی۔ ابوسفیان جونہی بستر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیٹھنے لگے تو آپ نے فوراً بستر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لپیٹ کر رکھ دیا۔
نواز رومانی اپنی تصنیف ازواج الرسول امہات المومنین میں یوں رقمطراز ہیں:
کیا تم نے اپنے باپ کو اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ وہ بستر پر ہی بیٹھ سکے؟ ابوسفیان نے حیرانگی و حیرت سے پوچھا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک ہے اور آپ بھی شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں لہذا میں نہیں چاہتی کہ آپ کے بیٹھنے سے اس بستر کے تقدس میں فرق آئے۔ (صفحہ نمبر:508)
وہ مزید لکھتے ہیں:
وہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی زندہ جاوید مثال تھیں کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک میری محبت اس کو، اس کی اولاد، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔
وقت گزرتا رہا اور ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے محبوب شوہر آقائے نامدار سے حاصل کردہ علم و عرفان اپنے روحانی بیٹے، بیٹیوں میں تقسیم فرماتی رہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے 65 احادیث مروی ہیں اور ان میں سے دو متفق علیہ ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر خالد پرویز اپنی تصنیف ’’امہات المومنین‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا علم و فضل اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اعلیٰ درجے پر فائز تھیں۔ امہات المومنین میں علم حدیث کے حوالے سے تیسرے درجے پر فائز تھیں کیونکہ پہلا درجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسرا درجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا تھا لیکن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے 65 احادیث مروی ہیں۔ (صفحہ 280)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ میں جام شہادت 44 ہجری کو 74 سال کی عمر میں نوش فرمایا لیکن اپنے دائمی سفر پر جانے سے قبل آپ رضی اللہ عنہا نے امہات المومنین حضرت سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنہا کو بلا بھیجا جب وہ تشریف لائیں تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے مخاطب ہوکر کہا:
مجھے ان امور میں معاف کردو جو ایک شوہر کی ازواج کے درمیان ہوجاتے ہیں لہذا جو کچھ میری جانب سے تمہارے متعلق واقع ہوا ہو اسے معاف کردو۔
(ازواج الرسول امہات المومنین، صفحہ 519)
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ امہات المومنین تمام امت مسلمہ کی خواتین کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہذا ان کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرہ ہوکر خواتین اپنی عائلی زندگی کو خوشگوار اور دین اسلامی کے مطابق بسر کرسکتی ہیں۔ اسی طرح ہم ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی سوانح حیات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان کے چند ایک پہلو پر تبصرہ کریں گے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کس طرح بہتری کا سامان پیدا کرسکتے ہیں۔
1۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ ہر حال میں دین اسلام کو فوقیت دینی چاہئے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہی ہے۔ اس کے لئے چاہے کتنے ہی کٹھن دور سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ جیسے آپ نے دین اسلام کو پسند کرتے ہوئے اپنے والد ابوسفیان کو مکہ چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن کچھ عرصے بعد جب ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش مرتد ہوگئے تو ان کو لاکھ سمجھانے کے باوجود نہ ماننے پر تنہا زندگی بسر کرنا پسند کی۔ پھر نہایت صبرو شکر سے زندگی کے دن گزارنے لگیں۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دین اسلام کی راہ میں حائل اگر باپ، بھائی، شوہر میں سے جو بھی آئے تو فقط دین اسلام کو فوقیت دی جائے اور اللہ کی مددو نصرت کا انتظار کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی سبق ہے کہ مصائب و آلام میں بھی اللہ رب العزت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ رب قادر اگر کسی ابتلاء میں مبتلا کرتا ہے تو انسان کو اس مصیبت میں غرق کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اس پر ثابت قدم رہنے پر وہ انعام و اکرام سے نوازتا ہے جس طرح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ ازدواج میں منسلک کرکے انہیں دلی سکون و اطمینان میسر آیا۔
2۔ اگر شوہر نیک صالح ہو تو اس کا دل سے عزت و احترام کرنا بھی دین اسلام سے ثابت ہے جس طرح 16 سال بعد جب ام حبیبہ کے والد گرامی ابوسفیان اپنی بیٹی سے ملنے آئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں عزت و تکریم دیتے ہوئے حجرے میں بلایا لیکن بستر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا منصب بہت اونچا ہے مگر عام عورتوں کے لئے اس میں یہ حکم ہے کہ اپنے شوہر کی عزت و حرمت کا خیال رکھا جائے۔ اس کی عیب جوئی نہ کی جائے۔ اس کے وقار کا خیال رکھا جائے۔ ہمارے معاشرے میں عورتیں اپنے شوہروں کو بدنام کرتی رہتی ہیں۔ ان کی عیب جوئی کرتی ہیں۔ دین اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔
3۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دم آخر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بلاکر ان سے معافی طلب کی کہ ان معاملات میں معاف کردیں جو ازواج کے درمیان ہوجایا کرتے ہیں۔
اس سے تمام خواتین کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کسی کے ساتھ احسن سلوک روا رکھنا چاہئے اور حتی الامکان محبت و امن اور بھائی چارگی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے اور رشتوں کو جوڑنے کا سبب بننا چاہئے کیونکہ ہمیں ام المومنین کی حیات مبارکہ سے نہایت نازک رشتہ جو عرف عام میں سوتن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسے بھی کتنے احسن انداز سے نبھانے کی مثال ملتی ہے کہ دوران زندگی وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے باوجود بھی تادم آخر ان سے معافی مانگ کر اس دنیا کو خیر آباد کہتی ہیں تاکہ وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ نہ لے جائیں لہذا ہمیں بھی اپنے تمام رشتوں کو اسی طرح سے نبھانا چاہئے تاکہ ایک پرامن و پرسکون فضاء کا حصول ممکن ہوسکے۔