سیرت صحابیات : ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

1003
0
Share:

ذیقعد 6 ہجری میں جب معاہدہ حدیبیہ طے پایا تو مشرکین و کفار مکہ کی جانب سے حملوں کے خطرات ٹل گئے تھے لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نواح عرب کے حکمرانوں اور رؤساء کو خطوط مبارک ارسال کئے جن میں ان کو دعوت اسلام دی گئی تھی۔ یکم محرم الحرام 7 ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خط شاہ مصر و سکندریہ جریج بن متی قبطی ملقب بہ مقوقس کو لکھا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو طلب کیا جب انہیں پیغام ملا تو بھاگم بھاگ بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر مودب کھڑے ہوگئے اور حکم کا انتظار کرنے لگے۔

“شاہ مقوقس مصری کے پاس میرا یہ خط لے جاؤ”۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اسے بڑی محبت و عقیدت سے پکڑا اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر نکل کر اپنے گھر کی سمت چل پڑے، راستے میں ان کے دل و دماغ میں خیالات کا ہجوم ہونے لگا : “میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنا قاصد بناکر بڑا اعزاز بخشا ہے، اللہ کرے میں اس ذمہ داری کو بطریق احسن سرانجام دے کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں سرخرو ہوجاؤں”۔

انہیں سوچوں میں مستغرق گھر پہنچ گئے۔ جلدی سے لباس تبدیل کیا، گھوڑے پر زین کسی اور پھر اس شاہراہ پر جو مدینہ منورہ سے مصر کی طرف جاتی تھی، گھوڑے کو سرپٹ دوڑانا شروع کردیا۔ انہیں اس بات کا کلی ادراک تھا کہ جب محبوب کوئی کام کرنے کو کہے تو پھر محب پر آرام حرام ہوجاتا ہے اور محبوب بھی کون جو رحمۃ للعالمین، باعث تخلیق کائنات اور راحت انس و جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں جن کی اطاعت و محبت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت ہے، جن کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، جن کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور جن کے روبرو بلند آواز سے بولنے پر اعمال ضائع ہوجاتے ہیں لہذا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی کوشش تھی کہ مہینوں کا سفر دنوں میں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو تاکہ جو فریضہ انہیں سونپا گیا ہے اس سے عہدہ برآہوسکیں۔

مصر کی تہذیب و تمدن و تاریخ بڑی قدیم ہے، یہ وہ شہر ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ یوسف میں ہے۔ دریائے نیل اہل مصر کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ یہ وہی دریا ہے کہ جب اس میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خط کو جو انہوں نے اس کے نام لکھا تھا، ڈالا گیا تو اس میں پہلے کی بہ نسبت سولہ گز پانی زیادہ چڑھ گیا اور اس قدیم جاہلانہ و قبیح رسم کا خاتمہ ہوگیا جس کے تحت ایک نوجوان خوبرو کنواری لڑکی کو اس کے والدین کی مرضی سے دریا کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا تو پھر اس میں پانی آتا تھا۔ اگر کسی نے حضرت عمر فاروق بن الخطاب کے ادب کا ڈھنگ سیکھنا ہو تو دریائے نیل سے سیکھے، وہ بتائے گا کہ ادب کیا ہوتا ہے اور بارگاہ خداوندی میں ان کی شان و مرتبہ کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

“اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر (رضی اللہ عنہ) ہوتے”۔

حضرت خواجہ خواجگان خواجہ عبدالرحمن اپنی کتاب مجموعہ صلوات الرسول کے پارہ 21 ص 51 پر فرماتے ہیں :

“عرش اعظم کے گرد 60 ہزار جہان ہیں جو سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے محبوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور ان سے بغض رکھنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں”۔

مصر فن تعمیر میں لاجواب تھا اور ہے۔ اہرام مصر ہنوز اپنے اندر ان گنت رموز و اسرار چھپائے ہوئے ہیں۔ قدیم مصر میں بادشاہ کو الہ یعنی دیوتا تصور کیا جاتا تھا، کسی میں اتنی جرات و ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرے بلکہ کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ فراعنہ مصر سے قبل لوگ تین خداؤں کو مانتے تھے جن کی مختلف مواقعوں اور تہواروں پر جداگانہ پرستش کی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت کا دھارا بہتا رہا اور مختلف تہذیبیں عروج و زوال سے دو چار ہوتی رہیں تو لوگ سانپ، نیولے، گوبر میں پیدا ہونے والے بھنورے، شیر، بلی، سانڈ، مینڈھے، مگر مچھ، شاہین اور سورج کی پوجا پاٹ کرنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مصر کے قبطیوں نے عیسائیت کو قبول کرلیا۔ شاہ مقوقس قبطی بھی اسی مذہب کا پیروکار تھا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں مصر کے ماضی کی تاریخ کے موٹے موٹے خدوخال ابھر رہے تھے اور گھوڑا برق رفتاری سے بھاگا جارہا تھا۔

کئی دنوں کی مسافت کے بعد جب دور سے شہر مصر کے آثار نظر آئے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے گھوڑے کی رفتار کو اور تیز کردیا۔ منزل مقصود سامنے نظر آرہی تھی لہذا جب آپ وارد شہر ہوئے تو دن خاصا چڑھ آیا تھا، ہر طرف زندگی رواں دواں تھی، آپ کا چہرہ مبارک اور لباس اگرچہ گرد آلود تھا لیکن تھکن کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا۔ مسرت اس بات کی تھی کہ جو ذمہ داری آپ کے آقا و مول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونپی تھی، وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ اہل مصر آپ کو اجنبی نظروں سے دیکھتے تھے اور گزر جاتے تھے۔ آخر ایک جگہ رک کر آپ نے ایک شخص سے پوچھا : “شاہ مقوقس سے کہاں ملاقات ہوسکتی ہے؟”

اس شخص نے عجیب سی نظروں سے آپ کی طرف دیکھا اور بولا : “اس وقت اپنے دربار میں ہوگا”۔

اور پھر ایک سمت اشارہ کرکے جانے کو کہا۔ آپ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھوڑے کا منہ اس طرف موڑ لیا جس طرف اس نے جانے کو کہا تھا۔

دربار کے باہر دو چوبدار نیزے پکڑے کھڑے تھے، آپ نے ایک کو مخاطب کرکے کہا : “اپنے بادشاہ کو جاکر بتاؤ کہ مدینہ منورہ سے قاصد آیا ہے”۔

چوبدار نے آپ کے سراپا پر نظر ڈالی اور اندر چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور آپ کو اندر جانے کو کہا۔ شاہ مقوقس زریں تخت پر بڑے رعب و دبدبہ سے بیٹھا تھا اور اس کے وزراء اور اراکین سلطنت ادب سے اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا، بڑی شان و متانت اور پروقار انداز سے شاہ مقوقس کے قریب جاکر رکے اور گویا ہوئے :

“اے مقوقس! تم سے پہلے اس ملک میں ایک شخص گزرا ہے جو گمان کرتا اور دعویٰ کرتا تھا کہ انا ربکم الاعلیٰ یعنی میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس سے انتقام لیا لہذا تم اپنے غیر سے عبرت حاصل کرو تاکہ تم سے کوئی دوسرا عبرت نہ لے”۔

اور پھر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط مبارک نکال کر اس کو دیا۔ مقوقس نے خط کو بڑے ادب سے لیا اور پھر اپنے کاتب کو دیا کہ اسے با آواز بلند پڑھے تاکہ سب حاضرین دربار سن لیں۔ کاتب کی آواز فضا میں ابھری :

یہ خط محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف سے جو اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، مقوقس کی طرف جو قبطیوں کا سردار ہے”۔ سلامتی ہو ہر اس شخص پر جو ہدایت کا پیروکار ہے۔

اما بعد! میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر عطا فرمائے گا اگر تم روگردانی کرو گے تو سارے قبطیوں کی گمراہی کا گناہ تیری گردن پر ہوگا۔

اے اہل کتاب! آجاؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا رب نہیں بنائیں گے اور اگر لوگ روگردانی کریں تو کہو اے منکرو! گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔

خط پڑھنے کے بعد کاتب نے مقوقس کو پیش کردیا اس نے ہاتھی دانت کی ایک خوب صورت ڈبیا لانے کو کہا اور پھر بڑے احترام سے اس نے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نامہ مبارک کو اس میں رکھا۔ ڈبیا کو سربمہر کردیا اور اپنی کنیز خاص کے حوالے کرتے ہوئے کہا : “اسے حفاظت سے سنبھال لو”۔

بعد ازاں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا : “ہمارا ایک دین ہے اور ہم اسے نہیں چھوڑسکتے بجز اس صورت میں کہ کوئی اور دین اس سے بہتر ہو”۔

سماعت فرمایا تو آپ گویا ہوئے :

“میں تجھے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلاتا ہوں جو دین اسلام ہے۔ اللہ کریم اس دین کے ذریعے دوسرے دینوں سے بے نیاز کردے گا۔ بلاشبہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دعوت اسلام دی مگر قریش سخت ترین لوگ تھے اور دشمن ترین لوگ یہود اور ان سے قریب ترین لوگ نصاریٰ ہیں۔ قسم ہے مجھے اپنی زندگی کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ایسی نہیں ہے جیسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت نبی آخرالزمان محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے اور ہمارا تمہیں قرآن کی طرف بلانا ایسا ہی ہے جیسے تم لوگ اہل تورات کو انجیل کی طرف بلاتے ہو اور ہر نبی نے جس قوم کو پایا تووہ قوم ان کی امت بن گئی لہذا اس قوم پر حق اور ثابت ہے کہ وہ قوم اس نبی کی اطاعت کرے اور تو نے اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پایا ہے لہذا ایمان لاکر ان کی امت میں داخل ہوجا۔ ہم تمہیں دین مسیح سے منع نہیں کرتے بلکہ دین مسیح کا حکم تجھے بتاتے ہیں (کہ اس کا حکم ہے کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا)”۔

شاہ مقوقس خاموشی سے قاصد رسول حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی باتیں سنتا رہا اور پھر اپنی زبان کو جنبش دی۔

“میں نے اس نبی کے بارے میں غوروفکر کیا ہے، مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ کسی قابل نفرت چیز کا حکم نہیں دیتے اور نہ کسی ایسی چیز سے روکتے ہیں جو رغبت و شوق سے متعلق ہو، میں اس سے بھی باخبر ہوگیا ہوں کہ وہ نہ ساحر قتال ہیں اور نہ کاہن کاذب ابھی میں اس پر مزید غوروفکر کررہا ہوں”۔

اور پھر اپنے خاص غلام کو بلاکر حکم دیا : “(حضرت) حاطب (رضی اللہ عنہ) ہمارے معزز مہمان ہیں، محل میں ان کے قیام کا بندوبست کرو، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہئے”۔

اور پھر دربار برخاست ہوگیا۔ محل میں رہتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کو کئی دن بیت گئے، ایک دن سورج ڈھلے کافی دیر ہوگئی تھی کہ ایک خادم حاضر خدمت ہوا اور عرض کی : “آپ کو بادشاہ سلامت یاد کرتے ہیں”۔ سنا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر خادم کے ساتھ چلے گئے اور پھر وہ ایک کمرے کے سامنے جاکر رکا اور شاہی مہمان سے مخاطب ہوکر کہا : “آپ اندر تشریف لے جائیں”۔

اس وقت شاہ مقوقس تنہا بیٹھا تھا اس نے آپ کو خوش آمدید کہا اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہا، تھوڑی دیر ماحول پر سکوت طاری رہا پھر وہ بولا : “حاطب (رضی اللہ عنہ)! جن کی طرف سے تم قاصد بن کر آئے ہو، کیا وہ اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں؟”

“ہاں! لاریب وہ رب کریم کی طرف سے مبعوث کئے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں”۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایمان کامل سے پرزور الفاظ میں جواب دیا۔ “پھر کیا بات ہے کہ انہوں نے اپنی اس قوم پر بددعا نہ کی جس نے انہیں اپنے شہر سے نکالا؟”

شاہ مقوقس نے کہا آپ رضی اللہ عنہ بولے : “وہ کیا بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی قوم نے پکڑا اور بقول نصاریٰ سولی پر چڑھادیا اور بد دعا نہ کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردیتا”۔

شاہ مقوقس نے سنا تو بے اختیار اس کے ہونٹوں سے نکلا : “تم ٹھیک کہتے ہو، حق تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہی حکم آیا تھا”۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نامہ مبارک اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو نے شاہ مقوقس پر روز روشن کی طرح عیاں کردیا تھا کہ جو صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی گئی ہیں، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان کے مطابق ہیں اور پھر وہ ہم کلامی کے انداز میں بولنے لگے :

یہ وہی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کی تشریف آوری کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔ بلاشبہ وہ غالب ہوں گے اور ان ممالک میں ان کے صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کا قبضہ ہوگا۔

اس کے بعد ماحول پر خاموشی طاری ہوگئی، دونوں اپنے اپنے خیالوں میں گم تھے پھر شاہ مقوقس نے آپ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا : “آپ جاکر آرام کریں، کل ملاقات ہوگی”۔

لہذا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر اپنی آرام گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ دوسرے دن دربار میں سب اعیان سلطنت موجود تھے، شاہ مقوقس کے قریب ہی خوب صورت کرسی پر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ مقوقس نے اہل دربار پر ایک طائرانہ نظر ڈالی پھر شاہی کاتب کو بلایا اور اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط کا جواب لکھانے لگا۔

محمد بن عبداللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حضور منجانب مقوقس عظیم القبط

اما بعد! میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا گرامی نامہ پڑھا اور جو کچھ اس میں تحریر تھا اور جس کی آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے دعوت دی، میں نے سمجھا بلاشبہ میں جانتا ہوں ایک ایسا نبی باقی رہا ہے جو خاتم الانبیاء ہوگا۔ میرا خیال ہے اس کا ظہور ملک شام سے ہوگا اور میں نے آپ کے قاصد کی آمد کو گرامی جانا۔ میں آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف ماریہ اور سیرین کو بھیجتا ہوں جوکہ قبط میں عظیم المرتبت ہیں اور کچھ لباس و تحائف اور ایک اونٹ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سواری کے لئے بھی پیش خدمت کرتا ہوں۔

ماریہ اور سیرین کا تعلق مصر کے ضلع انصا کے ایک گاؤں حفن سے تھا، ان میں سے اول الذکر خاتون نہایت حسین و جمیل، گوری رنگت، گھنگھریالے گھنے بالوں اور گتھے ہوئے جسم کی مالک ہونے کے علاوہ قدرت نے انہیں حسن باطن سے بھی خوب نوازا تھا۔ ان کا پورا نام ماریہ قبطیہ بنت شمعون المصری تھا اور قبطیہ ان کی قومی نسبت تھی۔

ان خواتین کے ہمراہ ان کا بوڑھا ماموں زاد یا چچا زاد بھائی مابور بھی تھا تاکہ وہ بہنوں کی ضروریات کا سامان بہم پہنچانے میں مدد دے۔ تحائف میں اونٹ کے علاوہ ایک سفید رنگ کا خچر جو دلدل کے نام سے مشہور تھا، ایک نیزہ، بیس قد کا لباس، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک خلعت اور ہزار مثقال سونا شامل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ شاہ مقوقس نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو تحفتاً سو مثقال سونا اور پانچ کپڑے دیئے تھے۔

اگلے روز چار نفوس پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ اپنے آقا و مول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتیں جلد سے جلد حاضر خدمت ہوکر پہنچادیں لیکن خواتین کی ہمراہی کی وجہ سے وہ اس برق رفتاری سے چل نہیں سکتے تھے جیسی انہوں نے مصر آتے ہوئے اختیار کی تھی۔

آپ رضی اللہ عنہ ان دونوں خواتین کا بے حد ادب و احترام کرتے اور انہیں کسی نوع کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے۔ یہ مختصر سا قافلہ منزلوں پہ منزلیں طے کرتا ہوا روز افزوں مدینہ منورہ کے قریب تر ہوتا جارہا تھا، دوران سفر جہاں کہیں قیام ہوتا تو موقع محل کی مناسبت سے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ماریہ، سیرین اور ان کے بھائی مابور کے سامنے اسلام کی حقانیت اور محاسن بیان کرتے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی بتاتے تھے۔ بالخصوص دونوں خواتین بڑے غور سے باتیں سنتی تھیں اگر کسی مقام پر کوئی بات سمجھنے میں دشواری محسوس کرتیں تو استفسار کرلیتی تھیں۔ وہ رفتہ رفتہ سمجھنے لگی تھیں کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جو حق ہے اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، اللہ تعالیٰ ہی صرف عبادت کے لائق ہے اور اس کے رسول اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں شبانہ روز سرگرم عمل ہیں۔

آخر کار کئی دنوں کی طویل مسافت کے بعد یہ چھوٹا سا قافلہ حدود مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ خواتین کو کہاں لے جاکر ٹھہرانا ہے لہذا آپ سیدھے حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ معزز خواتین کو وہاں ٹھہرانے کے بعد آپ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اس وقت وہاں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے چودھویں کا چاند ستاروں کے جھرمٹ میں ہو، وہاں پر موجود حضرات نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو راستہ دے دیا۔ انہوں نے اپنے محبوب و آقا و مول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچ کر نہایت ادب و محبت سے سلام عرض کیا اور شاہ مقوقس کا خط نکال کر پیش خدمت کیا اور کہا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! خبیث مقوقس نے اپنی بادشاہت کی وجہ سے بخیلی کی حالانکہ بادشاہت باقی نہیں رہے گی‘‘۔

محبوب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقوقس کے خط کی طرف دیکھا اور اسے کھولے بغیر ہی بتادیا کہ اس میں کیا لکھا ہے اور پھر حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے جب ماریہ اور سیرین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو ادب سے کھڑی ہوگئیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے تو وہ بھی مودب بیٹھ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

دوران سفر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی باتوں سے دونوں بہنیں دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کی مداح ہوچکی تھیں لہذا ماریہ نے نہایت ہی ادب سے عرض کی: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں، اللہ اور آپ پر برضا و رغبت ایمان لاتی اور مسلمان ہوتی ہوں‘‘۔

اور یہی الفاظ ان کی بہن سیرین نے کہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سماعت فرمایا تو بے حد مسرور و شاداں ہوئے، مسلمان ہونے کی دیر تھی کہ ماریہ، ماریہ سے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اور صحابیہ رسول بن گئیں اور صحابیہؓ ہونے کا مرتبہ ان کی بہن کو بھی مل گیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے خداداد حسن و جمال میں ایمان کے نور نے شامل ہوکر اسے چار چاند لگادیئے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشہور صحابی و شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت سیرین قبطیہ رضی اللہ عنہا عطا فرمادی جن کو وہ اپنے حبالہ عقد میں لے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہا نہایت صابرہ و شاکرہ تھیں۔

جب مابور کو قبول اسلام کی دعوت دی گئی تو اس نے عرض کی:

’’حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! میں چند دن مزید اس دعوت پر غورو خوض کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

وہ دین نصرانیت پر ہی قائم رہا لیکن چند دنوں کے بعد از خود بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر خلعت اسلام سے سرفراز ہوا اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا شرف پایا۔

اس مقام پر پہنچ کر میرا قلم از خود رک گیا، سوچوں کی زنجیروں نے میرے دل و دماغ کو جکڑ لیا، نظروں کے سامنے وہ مندرجات گردش کرنے لگے جو حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا کی بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حیثیت متعین کرنے کے سلسلہ میں مختلف کتب میں بکھرے پڑے ہیں۔

’’خاندان نبوت‘‘ میں ص283 اور 516 پر حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا کو ام المومنین لکھا ہے۔ ص519 پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کے نکاح کا ذکر کیا ہے لیکن باندیوں میں شمار کیا گیا ہے۔

’’مدارج النبوت‘‘ ج2 ص840 پر رقم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملک یمین کے تحت ان میں تصرف فرمایا۔

’’طبقات ابن سعد‘‘ ج1 ص191 پر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ملک یمین کی حیثیت سے اپنے پاس رکھا۔

’’سیرۃ الرسول‘‘ ص550 پر درج ہے کہ حضرت ماریہ قبطییہ رضی اللہ عنہا کا شمار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لونڈیوں میں ہوتا تھا لیکن بیٹے کی ولادت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں ان کا رتبہ کنیزی سے بڑھ کر زوجیت کے درجے تک پہنچ گیا۔

’’سیرالصحابہ‘‘ ج6 حصہ12 ص294 پر ہے کہ گو وہ کنیز تھیں لیکن ازواج کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو پردے میں رہنے کا حکم دیا اور ص287 پر مرقوم ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوئیں جبکہ ان کی بہن حضرت سیرین قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں آئیں۔

’’ضیاء النبی‘‘ ج چہارم ص202 پر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو کاشانہ نبوت کی زینت بننے کا شرف بخشا۔

’’حیات ام المومنین‘‘ ص79۔ 80 پر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے عنوان کے تحت آخر میں 12 نمبر پر حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا کا ذکر بحیثیت ام المومنین کے ہے اور لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو شرف زوجیت سے سرفراز فرمایا اور حضرت سیرین قبطیہ رضی اللہ عنہا حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔

’’سیرت النبی‘‘ ج1 ص443 پر لکھا ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوئیں، یہ خواتین لونڈیاں نہ تھیں، اسلام قبول کرچکی تھیں اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہوگا نہ کہ لونڈی کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حرم میں آئیں۔

میں سخت تذبذب کا شکار تھا کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو حبیب خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باندی سمجھوں یا زوجہ، یہ فیصلہ کرنا مجھ جیسے بے بضاعت و کم علم شخص کے لئے جسے دین اسلام کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں، بے حد دشوار و کٹھن مرحلہ تھا۔

مختلف النوع سوالات کے ہجوم نے مجھے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔ چنانچہ اس ضمن میں استمداد و رہنمائی کے لئے میری نظر انتخاب حضرت علامہ غلام رسول سعیدی مدظلہ العالی پر پڑی جن کا میں غائبانہ طور پر بے حد مداح ہوں۔ میں نے انہیں نو سوالات پر مشتمل ایک خط 31 مارچ 2003ء کو ارسال کیا لیکن شاید ان کی عدیم الفرصتی میرے خط کا جواب دینے میں آڑے آئی، بارگاہ خداوندی میں بھی بہ صمیم قلب دعا کی کہ وہ مجھ پر حق روشن فرمادے۔

بہر کیف اس حقیقت سے مفر نہیں کہ اسلام نے نہ صرف ہر اس برائی کو جس سے انفرادی و اجتماعی زندگی میں فساد برپا ہوتا اور آخرت برباد ہوتی ہو، مٹانے کی تلقین کی ہے بلکہ عملاً اس کی بیخ کنی کے اقدام کے لئے ترغیب دی ہے اور اس پر بے حد اجرو ثواب کا مژدہ سنایا ہے۔

عرب معاشرے میں جہاں اور بے شمار برائیوں نے چہار اکناف پنجے گاڑ رکھے تھے، وہاں عورتوں اور مردوں کو لونڈی و غلام بنانے کی لعنت نے بھی ہر سو ڈیرے ڈال رکھے تھے اور دوسری اشیاء کی طرح ذی روح انسانوں کو بھی بازار میں لاکر فروخت کردیا جاتا تھا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزاد پیدا فرمایا ہے لیکن لوگوں نے انہیں غلام بنالیا ہے‘‘۔

لہذا دین اسلام نے دنیا سے غلامی کی لعنت کے خاتمہ کے لئے مرکزی کردار ادا کیا۔ بات بات پر غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی، سیرو تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بے شمار غلاموں کو آزاد کیا اور یہ اسلام کی ہی مساعی و رحمت و برکت کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں غلامی کی لعنت کا وجود یکسر ختم ہوچکا ہے۔

اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اسلام میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی عام اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو ایک خاص ضرورت کے تحت بوجہ مجبوری جائز کیا گیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم ج4 ص51) دراصل جو کافر جہاد میں قید ہوکر مال غنیمت سے تقسیم کئے جائیں، صرف انہیں کو لونڈی یا غلام بنایا جاتا ہے اور یہ بھی اس صورت میں مباح کیا گیا ہے جب فریقین میں جنگی قیدیوں کا تبادلہ کا رواج نہ ہو۔

(شرح صحيح مسلم ج4 ص48)

لونڈی اور غلام کی اس تعریف کے ہم آہنگ اگر غلامی کے اسباب پر بھی طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو حقیقت حال روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کے درج ذیل پانچ اسباب ہیں:

  1. کسی شخص کا نسلاً غلام ہونا۔
  2. میدان جہاد میں جو کافر قید کئے گئے، ان کے مردوں کو غلام اور عورتوں کو باندیاں بنانا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور غلامی سے باغی اور منحرف تھے اس لئے بطور سزا کے انہیں اللہ تعالیٰ کے بندوں کا غلام بنادیا گیا پھر جب امیر لشکر انہیں مجاہدین میں تقسیم کرے گا تو جن مجاہدین کے حصہ میں آئیں گے، اس شخص کے غلام قرار پائیں گے اسی طرح میدان جنگ میں پکڑی جانے والی عورتیں جن کے حصہ میں آئیں گی، ان کی باندیاں ہوں گی یا مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال روانہ کیا جائے گا۔ اس حصہ میں سے سلطان جس شخص کو جو قیدی تقسیم کرے گا وہ اس کے غلام اور باندی ہوں گے۔
  3. کسی شخص سے غلام یا باندی کو خرید لیا جائے۔
  4. ان کا ہبہ
  5. ان کی وراثت

(شرح صحيح مسلم ج 4 ص47)

غلام و باندی کی تعریف اور اسباب غلامی کی روشنی میں دراصل حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا پر باندی کے لفظ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا لیکن متذکرہ بالا کتب کے مصنفین کی نگارشات سے دو قسم کے مکاتب فکر کا اظہار ہوتا ہے۔ پہلے مکتب فکر کے خیال میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی حیثیت ایک باندی کی تھی اور دوسرے مکتب فکر کی رائے میں آپ رضی اللہ عنہا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں شامل تھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر دو مکاتب فکر کے خیالات پر مزید غورو پرداخت کرلیا جائے تاکہ آپ رضی اللہ عنہا کی حیثیت کے بارے میں کسی نوع کا ابہام و اشکال نہ رہے۔

فرض کریں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ایک باندی کی حیثیت سے رہیں تو اس ضمن میں درج ذیل نکات پر تعمق کی ضرورت ہے:

اول: محبوب کبریا، راحت انس و جاں، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ، اسوہ حسنہ اور مکارم اخلاق لعل و گوہر کی طرح چمک دار، اجلے اور گلاب کے تازہ پھولوں کی طرح مشک بار ہیں جن کی چمک دمک اور خوشبو تا قیامت بلکہ اس کے بعد تک برقرار رہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ شان تھی کہ غیر مسلم افراد کے ساتھ بھی ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق برتؤ روا رکھتے تھے۔ اگر کسی قبیلے کا سردار شرف ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہوتا تو اس کو ایسی ہی عزت دی جاتی جس کا وہ اہل ہوتا تھا۔

حضرت صفیہ بنت حیی اور حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا غزوات میں مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھیں، باندیوں کے زمرے میں آتی تھیں لیکن خاندانی لحاظ سے عالی مرتبت تھیں، ان سے سلوک بھی ویسا ہی روا رکھا گیا، ان پر کسی نوع کا جبر نہیں کیا گیا، ان کے سامنے دو باتیں رکھی گئیں ایک یہ کہ اگر وہ اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہتی ہیں تو انہیں آزاد کردیا جائے گا اور وہ واپس جاسکتی ہیں اور دوسری یہ کہ مسلمان ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آجائیں۔ ہر دو خواتین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی و زوجیت کو قبول کیا اور امہات المومنین کے زریں تاج کو اپنے سروں پر سجایا۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اپنی قوم قبط میں عظیم المرتبت تھیں، شاہ مصر نے انہیں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں تحفتاً بھیجا تھا، وہ بجا طور پر توقع کرتی ہوں گی کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھا جائے گا جس کی وہ اہل ہیں۔ ان پر باندی کی تعریف لاگو نہیں ہوتی تھی اور اب جبکہ وہ نہ صرف مسلمان بلکہ صحابیات میں شامل تھیں تو ان کو شرف زوجیت بخش کر عملاً غلامی ختم کرنے کا نمونہ پیش کیا ہوگا۔

دوم: ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جن خواتین کا انتخاب فرمایا، وہ ہر لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل تھیں۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ رب کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب بھی عطا فرمایا تھا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوگا کہ شاہ مصر نے جس قبطی خاتون کو میرے پاس بھیجا ہے اس کے بطن سے میرا بیٹا تولد ہوگا۔

عرب معاشرے میں ایک آزاد عورت اور باندی کے بیٹے میں فرق رکھا جاتا تھا باندی کے بیٹے کو اتنی عزت کی نظر سے دیکھا نہیں جاتا تھا جتنا آزاد عورت کے بیٹے کو۔ حضرت اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

’’کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دیکھاتھا؟‘‘

انہوں نے کہا:

’’وہ بچپن میں فوت ہوگئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا آنا مقدر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا‘‘۔

(بخاری شريف ج2 ص914/ شرح صحيح مسلم ج6 ص726)

لہذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صاحبزادہ ہو اور باندی کا بیٹا کہلاتا یہ ماورائے سوچ ہے۔

سوم: بنی اسماعیل کا آغاز ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی زوجہ اطہر حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہوا جن کا تعلق قوم قبط سے اور شاہ مصر کی بھیجی ہوئی تھیں اس کا اختتام سیدالانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پر ہوا جن کی والدہ بھی قبطی اور شاہ مصر کی بھیجی ہوئی تھیں اور ان کی حیثیت ایک باندی کی ہو ممکن نہیں۔

چہارم: یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر دو بہنوں میں سے ایک کسی بڑے آدمی اور دوسری کسی غریب مرد کے نکاح میں آئیں تو لامحالہ نفسیاتی طور پر دوسری پہلی کی نسبت مختلف الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہوجاتی ہے۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی بہن تو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اور وہ خود رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بحیثیت باندی کے زندگی بسر کریں اس لئے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح نہیں فرمایا ہوگا، ویسے تو ہر مسلمان مرد ہو یا عورت، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کے غلام اور باندی بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

پنجم: شرح صحیح مسلم ج6 ص238 پر حدیث نمبر 6371 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’تم عنقریب مصر کو فتح کرو گے، یہ وہ سرزمین ہے جہاں قیراط بولا جاتا ہے جب تم اس سرزمین کو فتح کرو تو وہاں کے لوگوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان کا حق اور رشتہ ہے۔ یا فرمایا ان کا حق اور سسرالی رشتہ ہے۔ رشتہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حاجرہ رضی اللہ عنہا مصر سے تھیں اور سسرالی رشتہ سے مراد یہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی مصر سے تھیں‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کس کی مجال ہے کہ کسی سے حسن سلوک کرسکے۔ درحقیقت تمام حسن سلوکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک سے جنم لیا ہے۔ لہذا یقینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو زوجہ بناکر رکھا ہوگا نہ کہ باندی۔

ان حقائق کی روشنی میں ہمارا عقیدہ، عقیدت، عقل اور عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو زوجہ نہیں باندی بناکر رکھا ہوگا۔

دوسرے مکتب فکر کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور وہ ام المومنین ہیں۔ لہذا اس پہلو پر بھی قدرے غور وتحقیق کرنے سے صورت حال آئینہ کی مانند شفاف ہوسکتی ہے۔

اسلام میں عورت نکاح مسنونہ سے مرد پر حلال اور بغیر نکاح کے حرام قرار پاتی ہے، اسلام نے عورت کو قعر مذلت سے نکال کر مسند عزت و توقیر پر بٹھایا اور بے حد حقوق دیئے ہیں لیکن اسے باندی بناکر رکھنا جس سے بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کرنا درست ہو، عورت کی عزت نہیں ہے۔ دشمنان اسلام تو اسکی مخالفت کرتے اور باتیں بناتے ہیں لیکن اکثر مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال اکثر کلبلاتا رہتا ہے کہ اسلام جو دین فطرت ہے کس طرح اجازت دے سکتا ہے کہ چار عورتیں نکاح سے رکھ لی جائیں اور بغیر نکاح کے جتنی مرضی عورتوں کو باندیاں بناکر رکھ لیا جائے۔

(بشکريه کتاب ’’ازواج الرسول امهات المومنين، مصنف: نواز رومانی)

Share: