سوال : شریعت کی رو سے جبری نکاح کی کیا حیثیت ہے

Share:

جواب : ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

(البقرة : 256)

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہےo‘‘۔

دین میں جبر کیوں نہیں؟

دین اسلام میں جبر کو جائز کیوں نہیں جانا جاتا، اس حوالے سے مفسرین کرام اور فقہائے عظام نے متعدد وجوہات بیان کی ہیں، آیئے ان میں سے چند ایک کا مطالعہ کرتے ہیں :

علامہ قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ

علامہ قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ (م 791ھ) اپنی تفسیر انوارالتنزیل واسرار التاویل میں لکھتے ہیں :

جبر و اکراہ درحقیقت دوسرے پر ایسے فعل کو لازم کرنا ہے جس میں خود جبر کرنے والے کی نظر میں کوئی ایسی خیر و بھلائی نہیں ہوتی جو دوسرے کو اس کے کرنے کی ترغیب دے۔ ۔ ۔ جب عقلمند کے سامنے اچھائی و برائی واضح ہوجائے تو اس کا نفس کامیابی، سعادت اور نجات طلب کرتے ہوئے ایمان کی طرف بڑھے گا۔ (ج1 ص57 طبع مصر)

امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ

امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بعض انصار نے اپنے بچوں کو یہودی یا عیسائی بنا دیا۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام آیا تو ان لوگوں نے اپنے بچوں کو جبراً مسلمان کرنا چاہا تو اللہ پاک نے ان کو جبر سے منع فرما دیا، تاآنکہ وہ خود اسلام قبول کریں۔ (امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری (م 310ھ)، جامع البیان فی تفسیر القرآن ج3 ص10 طبع بیروت)

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ

لا يتصور الاکراه فی الدين لانه فی الحقيقة الزام الغير فعلا لا يری فيه خيرا يحمله عليه والدين خير کله.

’’دین میں جبر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ جبر و اکراہ کا مطلب ہے دوسرے پر ایسے فعل کو لازم کرنا جس میں کوئی خیر و بہتری نظر نہ آئے جو اسے اس فعل پر آمادہ کرے جبکہ دین پورے کا پورا خیر ہے‘‘۔

(سید محمود آلوسی بغدادی (م1270ھ) روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ج 3 ص 12 طبع ملتان)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ

ان الاکراه ان يقول المسلم للکافر ان امنت والاقتلتک فقال تعالیٰ لا اکراه فی الدين.

’’جبر یہ ہے کہ مسلمان کافر سے کہے اگر تو ایمان لایا تو بچ جائے گا ورنہ میں تجھے قتل کردوں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا دین میں جبر نہیں‘‘۔

(امام فخرالدین الرازی، تفسیر کبیر ج 7 ص 15 طبع ایران)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے یہ آیت کریمہ (لا اکراه فی الدين) انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جس عورت کی اولاد زندہ نہ رہے، وہ نذر مانتی کہ اگر اس کا بیٹا زندہ سلامت رہا تو اسے یہودی بنائے گی۔ جب بنی نضیر کو جلاوطن کیا گیا تو ان میں انصار کے بہت سارے بیٹے تھے۔ انصار نے کہا ہم تو اپنے بیٹوں کو نہیں جانے دیں گے تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لا اکراه فی الدين(دین میں جبر نہیں) ایک روایت میں ہے :

انصار نے کہا ہم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا کہ ہمارے خیال میں یہودی بنی نضیر کا دین ہمارے دین سے افضل ہے۔ اب جو اللہ پاک نے دین اسلام بھیجا تو ہم اپنے بیٹوں کو اسلام لانے پر مجبور کریں گے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لا اکراه فی الدين، دین میں جبر نہیں۔ جو چاہے ان سے مل جائے اور جو چاہے مسلمان ہوجائے۔

(ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری القرطبی (م 671ھ)، الجامع لاحکام القرآن ج 3 ص 182 طبع بیروت)

جبری نکاح جائز نہیں

ایمان لانا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونا تو دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ اندھیروں سے روشنی میں آنا، دوزخ سے چھوٹنے اور جنت میں داخل ہونے کا وسیلہ ہے۔ اس میں انسان کا سراسر فائدہ ہے۔ نقصان و زیاں کا شائبہ تک نہیں۔ اگر کسی کو جبراً بھی مسلمان کیا جائے تو اس کا کیا نقصان ہے؟ جبر کے ساتھ ساتھ اسے ایمان کے فوائد و ثمرات بھی بتائے جائیں۔ ممکن ہے ایمان کی حلاوت اسے کفر سے متنفر کردے اور وہ دل کی گہرائی سے مسلمان ہوجائے اور دونوں جہانوں کی بھلائیاں اسے نصیب ہو جائیں مگر اتنے مفید و منافع بخش سودے پر بھی کسی کو مجبور نہیں کیا گیا بلکہ اس کی مرضی و اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ چاہے تو ایمان لائے چاہے تو انکار کردے، جبر نہیں۔

جب دین اسلام میں داخل ہونے جیسے فائدہ مند اور سرا سر نفع رساں کام کے لئے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا تو پھر جبری نکاح کیونکر جائز ہو سکتے ہیں۔

شریعت کی رو سے نابالغ کی شادی تو ویسے ہی ناجائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

حَتّٰی اَذِا بَلَغُوْا النِّکَاحَ. ’’یہاں تک وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں‘‘۔ (النسآء : 6)

یعنی بالغ ہوجائیں، فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ. ’’تو نکاح کرو اپنی پسند کی عورتوں سے‘‘۔ (النسآء : 3)

عورتوں کو بھی نکاح کا اختیار حاصل ہے

اگر خاوند نے عورت کو تیسری طلاق دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح و قربت نہ کر لے۔ ارشاد رب العزت ہے :

فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ.

’’پھر وہ اسے طلاق دے ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ دوبارہ آپس میں نکاح کرلیں‘‘۔ (البقرہ : 230)

اس آیت کریمہ میں نکاح کرنے کا اختیار عورت اور مرد دونوں کو دیا گیا ہے۔ مزید ارشاد فرمایا :

وَلَا تُمْسِکُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا.

(البقرة : 231)

’’اور ان کو ضرر دینے کے لئے نہ روکو کہ زیادتی کرو‘‘۔

اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا :

فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ. (البقرہ : 232)

’’تو اے عورتوں کے والیو! انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو! جبکہ آپس میں شریعت کے موافق رضا مند ہوں‘‘۔

یہاں بھی نکاح کرنے کا اختیار عورتوں کو دیا گیا ہے۔ اسی طرح درج ذیل احادیث مبارکہ بھی جبری نکاح کی ممانعت اور نکاح کے لئے عورت کی رضا مندی کے حصول کی طرف متوجہ کرتی ہیں :

1. عن ابی هريرة رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم لا تنکح الا يم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن. قالوا يارسول الله وکيف اذنها قال ان تسکت.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شوہر کی عورت کا نکاح ا س کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جائے گا اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی اس کی اجازت کیسے ہوگی؟ فرمایا اس کی خاموشی‘‘۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم، باب استئذان الثیب فی النکاح بالنطق۔ ۔ ۔، رقم419)

2۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الايم احق من وليها والبکر تستاذن فی نفسها واذنها صماتها.

’’بے شوہر والی عورت ولی سے زیادہ اختیار رکھتی ہے۔ کنواری سے بھی نکاح کے سلسلہ میں اجازت مانگی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے‘‘۔ (ایضاً)

باپ کی طرف سے مسلط کردہ نکاح قبول نہیں

خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

ان اباها زوجها وهی ثيب فکرهت ذلک فاتت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فرد نکاحها.

’’ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا یہ بی بی بالغہ تھیں۔ اس بی بی نے اس کو ناپسند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں یہ آ کر شکایت کر دی۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نکاح رد فرما دیا‘‘۔ (صحیح البخاری، باب لاینکح الاب وغیرہ البکروالثیب۔ ۔ ۔، ج 5، رقن 4845)

ایک سوال اور اس کا جواب

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ايما امراة نکحت نفسها بغير اذن وليها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل فان دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی له.

’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا۔ اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ پھر اگر اس سے (نکاح کے بعد) قربت کی تو اس عورت کو حق مہر ملے گا، اس لئے کہ اس شخص نے اس عورت کی شرمگاہ اپنے لئے حلال کی ہے۔ اگر لوگ اختلاف کریں تو بادشاہ (اسلامی حکومت) ہر اس شخص کا ولی و سرپرست ہے جس کا کوئی ولی نہیں‘‘۔

(سنن ابن ماجہ، باب لانکاح الاولی، ج 1، رقم 1879)

نوٹ : اس حدیث مبارکہ میں باطل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ولی کے بغیر عورت کانکاح سرے سے ہوا ہی نہیں۔ نکاح ہو جاتا ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس بی بی سے نکاح کرنے والے نے قربت کی تو اسے پورا حق مہر ملے گا۔ اگر نکاح بغیر ولی کے حقیقتاً باطل ہوتا تو حق مہر کیوں واجب ہوتا؟ لہذا اسے باطل فرمانا بطور زجر و توبیخ ہے۔ یعنی اس عمل سے سختی سے منع فرمانے کے لئے باطل کا لفظ استعمال کیا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ایک بالغہ لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی :

ان اباها زوجها و هی کارهة فخير ها النبی صلی الله عليه وآله وسلم.

’’کہ اس کے باپ نے اس کی رضا مندی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا ہے تو نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لڑکی کو قبول یا رد کرنے کا اختیار دیدیا‘‘۔ (سنن ابوداؤد، باب فی البکر یزوجھا ابوھا۔ ۔ ۔، ج 2، رقم 2096)

پس اسلام میں جبراً نکاح کرنا محض باطل ہے۔ کسی صورت جائز نہیں۔

مگر اسلام دین فطرت ہے۔ افراط (حد سے بڑھنا) تفریط (حد سے کم کرنا) سے پاک ہے۔ ماں باپ کا اولاد پر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع اور پھر والدین سے حسن سلوک کو اللہ پاک نے برابر کی اہمیت دی ہے۔ پیدائش سے لے کر بچپن وہاں سے لڑکپن، نوجوانی اور جوانی کے مراحل سے بچوں کی خوراک، پوشاک، جسمانی و ذہنی نشوونما، تعلیم و تربیت، بلا معاوضہ رات دن اولاد کی خاطر محنت و مشقت، ان کے احوال کو سنوارنے اور کامیاب مستقبل کی تڑپ۔ ان کے کل کی خاطر اپنا آج قربان کرنا معمولی نوازشات نہیں اب جب کہ ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوگئی وہ زندگی کے ایک نئے موڑ پر پہنچ گئے، بیاہ شادی کا وقت آن پہنچا، زندگی کا بہت بڑا فیصلہ کرنے کی گھڑی آلگی، کیا مناسب ہوگا کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے میں ان کے والدین شامل نہ ہوں۔ ان کے مفید مشورے، تمنائیں اور نیک دعائیں میسر نہ ہوں، دوسرے لوگ تو پیش پیش ہوں اور ماں باپ، بہن بھائی اور اہل خاندان لاتعلق رہیں، ان خوشیوں میں شریک نہ ہوں، یہ بات کسی صورت بھی مناسب نہیں، یہ بے وفائی ہے، ان کا دل دکھانا ہے، ان کی بد دعاؤں کا نشانہ بننا ہے۔

مسئلہ دوست احباب کا نہیں کہ اور مل جائیں گے۔ یہ رشتے منڈی و بازار سے نہیں ملتے۔ لہذا شادی جیسے بڑے فیصلے کرتے وقت والدین کا مشورہ، اجازت اور رضا و دعا سے صرف نظر کرنا پر لے درجہ کی حرماں نصیبی ہے، ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

دوسری طرف والدین بھی نئے دور کے تقاضوں کو سمجھیں اور جذبات کے ساتھ عقل و فراست اور احکام شرع کا بھی لحاظ کریں جو بچے بچیاں 18۔ 20 سال اس معاشرہ میں نشوونما پاتے ہیں، تعلیم و تربیت پاتے اور دوسروں کو دیکھتے سنتے ہیں، ہوا میں معلق نہیں رہتے، میڈیا کا دور ہے، ان کے کان، آنکھوں پر پٹیاں نہیں باندھ سکتے۔ اتنی عمر میں اس علمی دور میں ان کے خیالات جذبات و احساسات کو سمجھیں۔ قرآن و سنت نے جو پسند کی شادی کا ان کو حق دیا ہے اس میں خواہ مخواہ رکاوٹ نہ بنیں۔ اگر کوئی دینی و اخلاقی رکاوٹ ہے تو بچوں کو پیار و دلیل سے سمجھائیں اور بہتر فیصلوں کا مشورہ دیں۔ اگر والدین اور اولاد دونوں ان حقیقتوں کو سمجھیں اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں، مناسب فیصلے کریں تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و رحمت شامل حال ہوگی۔ اللہ پاک ایسے رشتوں کو استحکام بخشے گا، ماں باپ اور اولاد دونوں کی رضا و مشاورت سے تمام فیصلے ہونگے، سارے فریق ایک دوسرے سے تعاون کریں گے، ان شاء اللہ مستقبل تابناک ہوگا۔

Share: