حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ
زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے اپنے والد اسلم رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حرہ واقم کی طرف نکلے، جب ہم صرار نامی جگہ پر پہنچے تو ہمیں آگ نظر آئی، تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے خیال میں تاریک رات اور سردی کی وجہ سے یہاں کوئی قافلہ رکا ہوا ہے چلو وہاں چلتے ہیں، ہم دوڑتے ہوئے چل پڑے، جب ہم ان کے قریب ہوئے تو وہ ایک عورت تھی اس کے پاس دو چھوٹے بچے تھے، ہانڈی آگ پر تھی اور بچے رو رہے تھے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اے آگ والو کہنا پسند نہ کیا، اس لئے فرمایا کہ اے روشنی والو! تم پر سلام ہو عورت نے وعلیکم السلام سے جواب دیا، فرمایا: کیا میں قریب آ جاؤں؟ عورت (جو آپ کو پہچانتی نہ تھی) کہا ارادہ اچھا ہے تو آ جائیں ورنہ واپس چلے جائیں، پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قریب آ کر پوچھا، تمہارا کیا معاملہ ہے؟ عورت کہنے لگی ہمیں رات اور سخت سردی نے روک رکھا ہے، آپ نے فرمایا یہ بچے کیوں رو رہے ہیں، کہنے لگی بھوک سے، فرمایا اس ہانڈی میں کیا ہے؟ کہنے لگی میں نے ان کو خاموش کرانے کی غرض سے (خالی ہنڈیا اوپر رکھی ہوئی ہے) ایسا کیا ہے تاکہ وہ سو جائیں، اللہ تعالی ہمارے اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے درمیان (انصاف کرنے والا) ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےاس عورت سے فرمایا، اللہ تجھ پر رحم کرے، آپ لوگوں کے بارے میں عمر کو کیا پتا ہوگا (کہ آپ کس حال میں ہیں)؟ عورت کہنے لگی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہم پر سرپرستی کرتے ہوئے بھلا کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟ راوی نے بیان کیا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرے ساتھ آؤ، ہم وہاں سے دوڑتے ہوئے نکلے اور آٹے کے گودام میں پہنچے، ایک پیمانہ آٹا اور ایک گولہ چربی لی پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے یہ اٹھواؤ، راوی نے بیان کیا کہ میں نے کہاں آپ نہ اٹھائیں میں اٹھاتا ہوں، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، تیری ماں نہ رہے (یہ عربی محاورہ ہے) کیا تم قیامت کے دن بھی میرے بوجھ کو اٹھاؤ گے؟ راوی نے کہا میں پس میں نے ان کو وہ بوجھ اٹھوا دیا، وہ اٹھا کر نکلے، میں بھی ساتھ گیا، انہوں نے دوڑتے ہوئے پہنچ کر وہ سامان ان لوگوں کے پاس رکھ دیا اور کچھ آٹا نکالا، اور فرمانے لگے، صاف کرکے مجھے دینا میں تمہارے لئے گوندھتا ہوں اور ساتھ ہی ہانڈی کی راکھ پر بھی پھونکنے لگے، تیار ہونے پر اس کو اتار دیا اور فرمایا، مجھے کوئی چیز لادو وہ عورت ایک برتن لے آئی، تو اس میں ڈال دیا، اور فرمایا بچوں کو کھلاؤ میں ان کے لئے جگہ برابر کرتا ہوں، اسی طرح وہ کام کاج میں وہیں رہے، یہاں تک کہ وہ بچے کھا کر سیر ہو گئے، بچا ہوا ان کے پاس چھوڑ دیا اور کھڑے ہو گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ میں بھی کھڑا ہو گیا، وہ عورت (جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتی نہ تھی) اس وقت کہہ رہی تھی جزاک اللہ خیرا، تم امیرالمومنین سے بڑھ کر اس منصب کے قابل تھے، انہوں نے فرمایا کہ جب تم امیرالمومنین کے پاس جاؤ گی، ان شاء اللہ، مجھے وہاں یہ بات کرنا، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک طرف ہٹ کر سامنے ہو کو ان کے انتظار میں بیٹھ گئے، راوی نے بیان کیا کہ میں نے سوچا کہ شائد اس کے علاوہ اور کوئی کام بھی ہوگا مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کوئی بات نہ کی، یہاں تک کہ میں نے دیکھا بچے کھیل کر سو گئے، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسلم! یقیناً بھوک نے ان کو رلایا اور بے چین کیا تھا، میں نے چاہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہ جاؤ جب تک بچوں کو اس حالت میں نہ دیکھ لو جو میں چاہتا تھا (کہ بچے پر سکون ہوکر سو جائیں)-
( فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل : 382 ، ،
تاريخ الامم والملوك للطبري (اسنادہ حسن))