Hazrat Baba Fariduddin Ganjshakar Poetry
فریدا در درویشی گاکھڑی ، چلاں دنیا بھت
بنھ اٹھائی پوٹلی کتھے ونجاں گھت
فرید یہ درویشی کا راستہ بڑا مشکل ہے،دنیا کا طریقہ اختیار کر لیں
مگر یہ جو درویشی کی پوٹلی اٹھا رکھی ہے اس کو کہاں پھینکوں
جے جاناں تل تھوڑے سنبھل بک بھریں
جے جاناں شوہ ننڈھڑا تھوڑا مان کریں
فرید اگر جانتا ہے کہ سانس تھوڑے ہیں تو احتیاط سے استعمال کر
اگر جانتا ہے کہ مالک بڑا بے نیاز ہے تو تھوڑا مان کر
جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
آپنے گریوان میں سر نیواں کر دیکھ
فرید اگر تیری عقل سلیم ہے تو اپنا دامن برائیوں سے نہ بھر
دوسروں کی عیب جوئی سے پہلے اپنے گریبان میں سر نیچا کر کے دیکھ
دیکھ فریدا جو تھیا : داڑھی ہوئی بھور
اگوں نیڑے آیئا پچھا رہیا دور
دیکھ فرید جو ہوا سو ہوا تیرے داڑھی سفید ہو گئی ہے
وقت آخر قریب آگیا ہے اور پچھلے دن جلدی جلدی گزر گئے ہیں
جن لوئن جگ موہیا سے لوئن میں ڈٹھ
کجل ریکھ نہ سہندیاں سے پنکھی سوئے بہٹھ
جن آنکھوں نے سارے جہان کو اپنی خوبصورتی سے گرویدہ کر ررکھا تھا وہ آنکھیں میں نے دیکھی ہیں
جو ذرہ برابر کاجل نہیں برداشت کرتیں تھیں مرنے کے بعد پرندوں نے گھونسلہ بناکر وہاں بچے دئیے
فریدا خاک نہ نندیے! خاکو جیڈ نہ کو ءِ
جِیَوندیاں پَیراں تلے ، مویاں اپر ہو ءِ
فریدا خاک کو برا نہ کہیں خاک جیسا کوئی بھی نہیں
زندگی میں پاؤں کے نیچے ہوتی ہے مرنے کے بعد اوپر آجاتی ہے
فریدا جنگل جنگل کیا بھویں ؟ وَن کنڈا مَوڑیں
وَسیِ رَب ہِیا لئے ، جنگل کیا ڈھونڈیں
فریدا تو جنگل جنگل گھومتا پھرتا ہے، ون کے پودوں کے کانٹوں کو توڑتا مڑوڑتا اور سہتا ہے
رب تو تیرے دل میں بستا ہے تو جنگل میں کس کو ڈھونڈتا ہے
فریدا روٹی میری کاٹھ دی ، لاون میری بھکھ
جنھاں کھادی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ
فریدا میری لکڑی کی روٹی میری بھوک مٹا دیتی ہے
جنہوں نے گھی والی روٹی کھائی ہے وہ آگے جا کر دکھ سہیں گیں
رکھی سکھی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی
فریدا ویکھ پَرائی چُوپڑی ، نہ تَرسائیں جی
روکھی سوکھی کھا کر اوپر سے ٹھنڈا پانی پی
اے فرید دوسروں کی گھی والی روٹی دیکھ کر اپنا جی نہ للچا
جوبن جاندے نہ ڈراں ،جے شوہ پریت نہ جا
فریدا کتی جو بن پریت بن ، سک گئے کملا
حسن و جوانی کے چلے جانے سے نہ گھبرا جب تک کہ محبوب کی محبت باقی ہے
اے فریدا کتنی ہی جوانیاں مرجھا گئیں کہ اُن کے پاس محبوب کی محبت نہیں تھی
برہا برہا آکھیے، برہا توں سُلطان
فریدا جِت تن برہوں نہ اُپچے سو تن جان مَسان
عشق و محبت کا ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے ، عشق تو سلطان ہے
اے فرید جس جسم میں عشق پیدا نہ ہو تو وہ مردہ ہے
فریدا چار گوائیاں ہنڈھ کے ، چار گوائیاں سَم
لیکھا رب منگیسا ، تُوں آیوں کیہڑے کَم
اے فرید دن بھر کے آٹھ پہروں میں سے چار تو کمانے کھانے میں گزارے اور چار سو کر گزار دیئے
لیکن رب نے تو محشر میں پوچھنا ہے کہ تجھے جہان میں کس کام سے بھیچا تھا۔
ہم نے نہیں پیدا کیا انسانوں کو اور جنات کو مگر یہ کہ میری معرفت حاصل کریں۔القرآن
بڈھا ہویا شیخ فرید ، کنبن لگی دیہہ
جے سَو ورھیاں جِیونا ، بھی تن ہوسی کھیہہ
اے فرید تو تو اب بوڑھا ہو گیا ہے تیرا جسم کانپنے لگا ہے
اگر سو سال کی بھی زندگی ہو پھر بھی آخرجسم نے خاک ہونا ہے
فریدا کوٹھے منڈپ ماڑیاں اُساریندے بھی گئے
کوڑا سودا کر گئے ، گورِیں آءِ پئے
دیکھ فرید بڑی بڑی عمارتیں ، محلات و حویلیاں تعمیر کر کرا کر لوگ چلے گئے
کھوٹا سودا کر کے بالاخر قبروں میں جا پڑے ہیں
فریدا کالے مینڈھے کپڑے ، کالا مینڈا وَیس
گناہیں بھریا میں پھراں ، لوک کہن درویش
فریدا میرے کپڑے بھی کالے ہیں اور لباس بھی کالے رنگ کا ہے
میں گناہوں سے بھرا ہوا ہوں اور لوگ مجھے درویش کہتے ہیں
Baba Farid
بابا فرید الدین گنج شکر