حضرت داود علیہ السلام کے مناقب کا بیان

Share:

118/ 1. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَی اﷲِ صِيَامُ دَاوُدَ کَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَی اﷲِ صَلَاةُ دَاوُدَ کَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأَنبياء، باب: أَحب الصلاة إلی اﷲ صلاة داود، 3/ 1257، الرقم: 3238، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: النهي عن صوم الدهر لمن تضرر به أَو فوت به حقا، 2/ 816، الرقم: 1159، وأَبو داود في السنن، کتاب: الصوم، باب: في صوم يوم وفطر يوم، 2/ 327، الرقم: 2448، والنسائي في السنن، کتاب: قيام الليل وتطوع النهار، باب: ذکر صلاة نبي اﷲ داود عليه السلام بالليل، 3/ 214، الرقم: 1630، وفي کتاب: الصوم، باب: صوم نبي اﷲ داود عليه السلام، 4/ 198، الرقم: 2344، وابن ماجة في السنن، کتاب: الصيام، باب: ما جاء في صيام داود عليه السلام، 1/ 546، الرقم: 1712، وأَحمد بن حنبل في المسند، 2/ 160، الرقم: 6491، والبزار في المسند، 6/ 356، الرقم: 2364، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 3، الرقم: 4432، وفي السنن الصغری، 1/ 477، الرقم: 838.

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو حضرت داود علیہ السلام کا روزہ سب روزوں سے زیادہ پسند ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت داود علیہ السلام کی نفل نماز تمام (نفل) نمازوں سے زیادہ پسند ہے۔ وہ پہلے نصف رات تک سوتے پھر تہائی رات قیام کرتے پھر باقی چھٹا حصہ سوتے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

119/ 2. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : کَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ عليه السلام يَقُولُ: اَللَّهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّکَ، اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ. قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِذَا ذَکَرَ دَاوُدَ عليه السلام يُحَدِّثُ عَنْهُ قَالَ: کَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

وفي رواية للمروزي: إِنَّ أَخِي دَاوُدَ عليه السلام کَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ کَانَ يَقُومُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَصُومُ نِصْفَ الدَّهْرِ.

الحديث رقم: أَخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم، باب: ما جاء في عقد التسبيح باليد، 5/ 522، الرقم: 3490، والحاکم في المستدرک، 2/ 470، الرقم: 3621، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 17/ 86، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1/ 110، الرقم: 23، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 206، وقال: رواه البزار وإسناده حسن، والمبارکفوري في تحفة الأَحوذي، 9/ 325، والمناوي في فيض القدير، 4/ 544.

’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حضرت داود علیہ السلام کی دعا یہ تھی، آپ فرمایا کرتے تھے: ’’اے اﷲ، بے شک میں تجھ سے تیری محبت اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور وہ کام جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے کا سوال کرتا ہوں۔ اے اﷲ، تو اپنی محبت کو میرے نزدیک میرے نفس، میرے اہل و عیال اور ٹھنڈے پانی سے بڑھ کر محبوب بنا دے۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب حضرت داود علیہ السلام کا ذکر کرتے تھے تو آپ علیہ السلام کے بارے میں بیان فرماتے تھے: آپ علیہ السلام (اپنے دور میں) تمام انسانوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن اور صحیح الاسناد ہے۔

اور امام مروزی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میرے بھائی داود علیہ السلام (اپنے دور میں) تمام انسانوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے، آپ آدھی رات تک قیام فرماتے تھے اور آپ نے اپنی عمر کا آدھا حصہ روزے کی حالت میں گزارا۔‘‘

120/ 3. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبَّهٍ رضی الله عنه قَالَ: وَکَانَ نَبِيُّ اﷲِ دَاوُدُ بْنُ إِيْشَا بْنِ يَعْقُوْبَ، بْنِ إِسْحَاقَ، بْنِ إِبْرَاهِيْمَ الْخَلِيْلِ عليهم السلام وَکَانَ رَجُلًا قَصِيْرًا أَزْرَقَ، قَلِيْلَ الشَّعْرِ، طَاهِرَ الْقَلْبِ، فَقِيْهًا.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 640، الرقم: 4130، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1/ 261.

’’حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت داود علیہ السلام بن ایشا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل علیہم السلام درمیانے قد کے مالک، مختصر نیلے بالوں والے، پاکیزہ دل اور بہت سمجھ بوجھ والے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور طبری نے روایت کیا۔

121/ 4. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: اخْتَارَ اﷲُ لِنُبُوَّتِهِ وَانْتَخَبَ لِرِسَالَتِهِ دَاوُدَ بْنَ إِيْشَا فَجَمَعَ اﷲُ لَهُ ذَلِکَ النُّوْرَ وَالْحِکْمَةَ وَزَادَهُ الزَّبُوْرَ مِنْ عِنْدِهِ، فَمَلَکَ دَاوُدُ بْنُ إِيْشَا سَبْعِيْنَ سَنَةً فَأَنْصَفَ النَّاسَ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ وَقَضَی بِالْفَصْلِ بَيْنَهُمْ بِالَّذِي عَلَّمَهُ اﷲُ وَأَعْطَاهُ مِنْ حِکْمَتِهِ وَأَمَرَ رَبُّنَا الْجِبَالَ فَأَطَاعَتْهُ وَأَلاَنَ لَهُ الْحَدِيْدَ بِإِذْنِ اﷲِ وَأَمَرَ رَبُّنَا الْمَلَائِکَةَ بِأَنْ تَحْمِلَ لَهُ التَّابُوتَ فَلَمْ يَزَلْ دَاوُدُ يُدَبِّرُ بِعِلْمِ اﷲِ وَنُوْرِهِ قَاضِيًا بِحَلَالِهِ، نَاهِيًا عَنْ حَرَامِهِ حَتَّی إِذَا أَرَادَ اﷲُ أَنْ يَقْبِضَهُ إِلَيْهِ أَوْحَی إِلَيْهِ أَنِ اسْتَوْدِعْ نُوْرَ اﷲِ وَحِکْمَتَهُ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ إِلَی ابْنِکَ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ فَفَعَلَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حِيَانَ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 642، الرقم: 4135، وابن حيان في العظمة، 5/ 1610. 1611.

’’حضرت محمد بن جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی نبوت اور رسالت کے لئے حضرت داود بن ایشا علیہ السلام کا انتخاب فرمایا اور ان کے نور و حکمت کو جمع فرمایا اور اپنی طرف سے انہیں زبور عطا فرمائی۔ سو حضرت داود بن ایشا علیہ السلام نے ستر سال تک حکومت کی۔ انہوں نے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ فرمایا اور انہوں نے یہ فیصلے اس علم کے ذریعے فرمائے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا تھا اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنی حکمت میں سے حصہ وافر عطا فرمایا اور ہمارے رب کریم نے پہاڑوں کو حکم دیا کہ وہ ان کی اطاعت بجا لائیں اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے اذن سے لوہے کو اپنے لیے نرم کیا۔ اور ہمارے رب نے ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ ان کا تابوت اٹھائیں۔ پس حضرت داود علیہ السلام ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کے (عطاکردہ) علم اور نور کے ذریعے تدبیر کرتے رہے، حلال کا حکم دیتے ہوئے اور حرام سے منع کرتے ہوئے یہاں تک کہ جب اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کی روح قبض کر لے تو ان کی طرف وحی فرمائی کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا نور اور اس کی ظاہری و مخفی حکمت اپنے بیٹے سلیمان بن داود علیہما السلام کو ودیعت کر دیں۔ پس انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور ابن حیان نے روایت کیا ہے۔

122/ 5. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: مَلَکَ الْأَرْضَ أَرْبَعَةٌ: سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عليه السلام وَذُوْالْقَرْنَيْنِ، وَرَجُلٌ مِنْ أَهْلِ حَلْوَانَ، وَرَجُلٌ آخَرَ فَقِيْلَ لَهُ: الْخِضْرُ؟ فَقَالَ: لَا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

وفي رواية: عَنْ سَعِيْدِ بْنِ بَشِيْرٍ وَالسُّفْيَانِ الثَّوْرِيِّ: قَالَا: مَلَکَ الْأَرْضَ أَرْبَعَةٌ: اثْنَانِ مُؤْمِنَانِ: سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عليه السلام وَذُوْالْقَرْنِيْنِ وَاثْنَانِ کَافِرَانِ: نَمْرُوْدُ بْنُ کَوْشٍ بْنِ حَامِ بْنِ نُوْحٍ وَبَخْتُ نَصْرٍ.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ. .

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 645، الرقم: 4143، والعسقلاني نحوه في فتح الباري، 6/ 385، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 17/ 336. 337.

’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس (پوری) زمین پر چار بندوں نے حکومت کی: حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام اور ذوالقرنین اور اہل حلوان میں سے ایک شخص نے اور ایک کسی اور شخص نے۔ ان سے پوچھا گیا: کیا وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں سعید بن بشیر اور سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ اس (پوری) زمین پر چار بندوں نے حکومت کی۔ ان میں سے دو مومن تھے: (جو کہ) حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام اور ذوالقرنین علیہ السلام تھے اور دو کافر تھے: نمرود بن کوش بن حام بن نوح اور بخت نصر۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

Share: