حضرت ہارون علیہ السلام کے مناقب کا بیان

Share:

116/ 1. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبَّهٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ هَارُوْنُ بْنُ عِمْرَانَ فَصِيْحَ اللِّسَانِ بَيِّنَ الْمَنْطِقِ يَتَکَلَّمُ فِي تُؤَدَةٍ وَيَقُوْلُ بِعِلْمٍ وَحِلْمٍ، وَکَانَ أَطْوَلَ مِنْ مُوْسَی طُوْلًا وَأَکْبَرَهُمَا فِي السِّنِّ وَکَانَ أَکْثَرَهُمَا لَحْمًا وَأَبْيَضَهُمَا جِسْمًا وَأَعْظَمَهُمَا أَلْوَاحًا، وَکَانَ مُوْسَی رَجُلًا جَعْدًا آدَمَ طِوَالًا کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ وَلَمْ يَبْعَثِ اﷲُ نَبِيًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنَی إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ نَبِيُنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه واله وسلم فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتْفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُنَا صلي الله عليه واله وسلم عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ: هَذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتْفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 631، الرقم: 4105.

’’حضرت وھب بن منبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام فصیح اللسان اور واضح کلام فرمانے والے تھے۔ آپ پرسکون لہجہ میں بات کرتے تھے اور علم و حلم کی بات کرتے تھے اور قد میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لمبے تھے اور عمر میں بھی ان سے بڑے تھے اور ان سے زیادہ پرگوشت اور سفید جسم والے تھے اور آپ کے جسم کی ہڈیاں بھی ان کے جسم کی ہڈیوں سے بڑی تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بالوں والے، گندم گوں اور لمبے قد کے مالک تھے گویا کہ آپ قبیلہ شنوہ کے کوئی شخص ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے۔ پس آپ کی مہرِ نبوت آپ کے مبارک شانوں کے درمیان تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام علیہم السلام کی مہر ہے کیونکہ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے (اس لئے میرے بعد کسی کے لئے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی)۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا۔

117/ 2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه فِي قَوْلِهِ ل: {يَاأَيُهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِيْنَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَهُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْا}، [الأَحزاب، 33:69]، قَالََ: صَعِدَ مُوْسَی وَهَارُوْنُ الْجَبَلَ فَمَاتَ هَارُوْنُ فَقَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيْلَ لِمُوْسَی: أَنْتَ قَتَلْتَهُ کَانَ أَشَدَّ حُبًّا لَنَا مِنْکَ وَأَلْيَنَ لَنَا مِنْکَ فَآذَوْهُ فِي ذَلِکَ فَأَمَرَ اﷲُ الْمَلَائِکَةَ فَحَمَلَتْهُ فَمَرُّوا بِهِ عَلَی مَجَالِسِ بَنِي إِسْرَائِيْلَ حَتَّی عَلِمُوا بِمَوتِهِ فَدَفَنُوهُ وَلَمْ يَعْرِفْ قَبْرَهُ إِلَّا الرَّخَمُ وَأَنَّ اﷲَ جَعَلَهُ أَصَمَّ أَبْکَمَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْمَقْدَسِيُّ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

وَقَالَ: الْحَاکِمُ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 633، الرقم: 4110، وأبوالمحاسن في معتصر المختصر، 2/ 157، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 232، الرقم: 611، والمحاملي في الأمالي، 1/ 195، الرقم: 176، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 535، والطبري في جامع البيان، 22/ 52، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 521.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان: {يَا أَيُهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِيْنَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَهُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْا} ’’اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو (گستاخانہ کلمات کے ذریعے) اذیت پہنچائی۔ پس اﷲ تعالیٰ نے انہیں ان باتوں سے بے عیب ثابت کر دیا جو وہ کہتے تھے۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام ایک پہاڑ پر چڑھے۔ پس اس پہاڑ پر حضرت ہارون علیہ السلام وفات پا گئے (یہ خبر سن کر) بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ نے انہیں قتل کیا ہے وہ آپ سے زیادہ ہم سے پیار کرنے والے اور ہمارے لئے نرم دل تھے۔ پس انہوں نے اس معاملہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا تو وہ حضرت ہارون علیہ السلام کے جسدِ اقدس کو اٹھا کر بنی اسرائیل کی مجالس کے پاس سے گزرے یہاں تک کہ وہ ان کی موت کو جان گئے۔ پھر انہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کو دفن کر دیا اور ان کی قبر مبارک کو گدھ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور اﷲ تعالیٰ نے اسے گونگا بہرا بنایا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور ضیاء مقدسی نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

Share: