آپ رضی اللہ عنہ کی جود و سخا کا بیان

Share:

32. عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ خَبَّابِ قَالَ : شَهِدْتُ النَبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَحُثُّ عَلٰي جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ عَليَّ مِئْةُ بَعِيْرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَي الْجَيشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ عَليَّ مِئَتَا بَعِيْرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اﷲِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَي الْجَيْشِ فَقامَ عُثْمَانُ ابْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم !ِﷲِ عَلَيَّ ثَلاَثُ مِئَةِ بَعِيْرِ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُوْلُ : مَا عَلٰي عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ، مَا عَلٰي عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

’’حضرت عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیش عسرہ کے متعلق لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اﷲ! میں سو اونٹ مع ساز و سامان اﷲ کے راستے میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ترغیب دلائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر اٹھے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! میرے ذمہ اﷲ کی راہ میں دوسو اونٹ مع سازوسامان اور غلہ کے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ترغیب دلائی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ذمہ تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے اﷲ کی راہ میں ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر سے اترے اور فرمایا : اس عمل کے بعد عثمان جو کچھ بھی آئندہ کرے گا اس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوگی۔ اِس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 625، الحديث رقم : 3700، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 75، و الطيالسي في المسند، 1 / 164، الحديث رقم : 1189، و عبدبن حميد في المسند، 1 / 128، الحديث رقم : 311.

33. عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ : جَاءَ عُثْمَانُ إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِأَلْفِ دِيْنَارٍ، قاَلَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ : وَکَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ کِتَابِيْ، فِيْ کُمِّه حِيْنَ جَهَزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا فِي حِجْرِهِ قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ : فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يُقَلِّبُهَا فِيْ حِجْرِهِ وَيَقُوْلُ : مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب جیش عسرہ کی روانگی کا سامان ہو رہا تھا۔ آپ نے اس رقم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ان دیناروں کو اپنی گود میں دست مبارک سے الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کرے گا اسے کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ دوبار ارشاد فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔

الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 626، الحديث رقم : 3701، و الحاکم في المستدرک علي الصححين، 3 / 110، الحديث رقم ، 4553، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1279، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 515، الحديث رقم : 846، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 1 / 477، الحديث رقم : 666.

34. عَنْ أَبِيْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السُّلْمِيِّ، قَالَ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ ثُمَّ قَالَ : أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ حِرَائَ حِيْنَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْکَ إلاّ نَبِيُّ أوْصِدِّيقٌ أوْ شَهِيْدٌ؟ قَالُوْا نَعَمْ. قَالَ : أُذَکِّرُکُمَ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ : مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً. وَالنَّاسُ مُجْهَدُوْنَ مُعْسَرُوْنَ فَجَهَزْتُ ذَلِکَ الْجَيْشَ؟ قَالُوْا : نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رُوْمَةَ لَمْ يَکُنْ يَشْرَبُ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُهَا فَجَعَلْتُهَا لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيْرِ وَابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالُوْا : اللَّهُمَّ نَعَمْ، وَأشْيَائُ عَدَّدَهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا گیا تو انہوں نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانکا اور فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو جب جبل حراء لرز اٹھا تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : اے حراء! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اﷲ کی قسم دلا کر یاد دلاتا ہوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیش عسرہ کے موقع پر فرمایا تھا : کون ہے جو مقبول نفقہ خرچ کرتا ہے، اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ تنگدستی و مصیبت میں مبتلا ہیں تو میں نے اس لشکرکی روانگی کا سامان کیا تھا یہ سن کر محاصرین نے کہا : ہاں پھر حضرت عثمان نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کہ بیئر رومہ (رومہ کے کنویں) سے کوئی شخص بلا قیمت پانی نہ پیتا تھا میں نے اسے کوشش کرکے خریدا اور اس کو غنی فقیر اور مسافر سب کے لئے وقف عام کر دیا انہوں نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے اسی طرح اور بہت سی باتیں یاد دلائیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

الحديث رقم 34 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 625، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، الحديث رقم : 3699، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 348، الحديث رقم : 6916، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 59، الحديث رقم : 420، و الدار قطني في السنن، 4 / 198، الحديث رقم : 8، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 483، الحديث رقم : 358.

35. عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حِزْنِ الْقُشَيْرِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ : ائْتُوْنِي بِصَاحِبَيْکُمُ اللَّذَيْنِ أَلَبَّاکُمْ عَلَيَّ قَالَ : فَجِيْئَ بِهِمَا فَکَأَنَّهُمَا جَمَلاَنِ أَوْ کَأَنَّهُمَا حِمَارَانِ، قَالَ : فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدِمَ المَدِيْنَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِرُوْمَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَشْتَرِيْ بِئْرَرُوْمَةَ فَيُجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِيْنَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِيْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُوْنِيْ أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّي أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ قَالُوْا : أَللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِه، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَشْترِي بُقْعَةَ آلِ فُلاَنٍ فَيَزِيْدَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِن صُلْبِ مَالِيْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُوْنِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيْهَا رَکْعَتَيْنِ؟ قَالُوْا : اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَ بِالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّيْ جَهَزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِيْ؟ قَالُوْا أَللَّهُمَّ نَعَمْ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَ الِْإسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلَي ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَ مَعَهُ أبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ أَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتَّي تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيْضِ قَالَ : فَرَکَضَهُ بِرِجْلِهِ وَ قَالَ : اسْکُنْ ثَبِيْرُ فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَ صِدِّيْقٌ وَ شَهِيْدَانِ؟ قَالُوْا : أَللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ اﷲُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِيْ وَ رَبِّ الْکَعْبةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَلاَ ثًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ النِّسَائِيُّ.

وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت ثمامہ بن حزن قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں (محاصرہ کے وقت) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اوپر سے جھانکا اور فرمایا : لاؤ اپنے ان دو افراد کو جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں کو اسطرح لایا گیا جیسے دو اونٹ ہوں یا دو گدھے ہوں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اوپر سے جھانکا اور فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو وہاں پر بئرِ رومہ کے سوا میٹھا پانی اور کہیں نہیں تھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو بیئر رومہ کو خرید کر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردے۔ اس کے بدلہ میں اسے اس سے اچھی چیز بہشت میں ملے گی؟ یہ سن کر میں نے اسے خاص اپنے مال سے خریدا۔ آج تم مجھے اس کنویں کا پانی پینے سے روکتے ہو یہاں تک کہ میں سمندر (کے پانی جیسا کھارا) پانی پیتا ہوں۔ انہوں نے کہاں ہاں۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ نمازیوں کے لئے مسجد کی جگہ تنگ تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو فلاں شخص کی اولاد سے زمین خرید کر اسے مسجد میں شامل کردے اس کے بدلہ میں اسے بہشت میں ایسی جگہ ملے گی جو اس کے لئے اس زمین سے بہتر ہوگی۔ یہ سن کر میں نے وہ زمین خاص اپنے مال سے خریدی اور آج تم مجھے اس میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روکتے ہو انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ جیش عسرہ کا سامان میں نے ہی مہیا کیا تھا؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے ایک پہاڑ پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر اور حضرت عمر تھے اور ساتھ میں بھی تھا پہاڑ لرزنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرپڑے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کو اپنے قدم مبارک کی ٹھوکر مار کر فرمایا ثبیر! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں لوگوں نے کہا! ہاں اﷲ کی قسم ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ اکبر ان لوگوں نے میرے موافق گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں ہی وہ شہید ہوں یہ تین بار فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

الحديث رقم 35 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 627، الحديث رقم : 3703، و النسائي في السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6 / 235، الحديث رقم : 3608، و النسائي في السنن الکبريٰ، 4 / 97، الحديث رقم : 6435، و الدار قطني في السنن، 4 / 196، الحديث رقم : 2، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 1 / 448، الحديث رقم : 322.

36. عَنْ بَشِيْرٍ الْأَسْلَمِّيِ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُوْنَ الْمَدِينَةَ اسْتَنْکَرُوْا الْمَائَ، وَکَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي غَفَّارٍ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا رُوْمَةُ وَکَانَ يَبِيْعُ مِنْهَا الْقِرْبَةَ بِمُدٍّ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِعْنِيْهَا بِعَيْنٍ فِي الْجَنْةِ فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَيْسَ لِي وَ لاَ لِعِيَالِي غَيْرُهَا، لاَ أَسْتَطِيْعُ ذَلِکَ فَبَلَغَ ذَالِکَ عُثْمَانَ رضي الله عنه فَاشْتَرَاهَا بِخَمْسَةٍ وَثَلاَثِيْنَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ أَتَجْعَلُ لِي مِثْلَ الَّذِيْ جَعَلْتَهُ عَيْنًا فِي الْجَنَّةِ إِنِ اشْتَرَيْتُهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : قَدِ اشْتَرَيْتُهَا وَجَعَلْتُهَا لِلْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ الْطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

’’حضرت بشیر اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو انہیں پانی کی قلت محسوس ہوئی اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے پاس ایک چشمہ تھا جسے رومہ کہا جاتا تھا اور وہ اس چشمہ کے پانی کا ایک قربہ ایک مد کے بدلے میں بیچتا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمہ کے بدلے میں بیچ دو تو وہ آدمی کہنے لگا یا رسول اﷲ! میرے اور میرے عیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چشمہ نہیں ہے اس لئے میں ایسا نہیں کرسکتا پس یہ خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے وہ چشمہ پینتیس ہزار دینار کا خرید لیا پھر آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! اگر میں اس چشمہ کو خرید لوں تو کیا آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھی اس کے بدلہ میں جنت میں چشمہ عطا فرمائیں گے جس طرح اس آدمی کو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے فرمایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (عطا کروں گا) تو اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! وہ چشمہ میں نے خرید کر مسلمانوں کے نام کردیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 41، الحديث رقم : 126، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 129، و العسقلاني في الأصابة، 2 / 543.

Share: