حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیعت رضوان میں اپنے ہاتھ کو عثمان غنی کا ہاتھ قرار دینا

Share:

29. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالکٍ، قَالَ : لَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ کَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلٰي أَهْلِ مَکَّّةَ، قَالَ : فَبَايَعَ النَّاسُ، قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ عُثْمَانَ فِيْ حَاجَةِ اﷲِ وَحَاجَةِ رَسُوْلِهِ. فَضَرَبَ بِإِحْدَي يَدَيْهِ عَلٰي الْأُخْرَي، فَکَانَتْ يَدُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعُثْمَانَ خَيْراًِمنْ أَيْدِيْهِمْ لِأَنْفُسِهِمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت رضوان کا حکم دیا تو اس وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سفیر بن کر مکہ والوں کے پاس گئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان اﷲ اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا پس حضرت عثمان کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے (کئی گنا) اچھا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

الحديث رقم 29 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 626، الحديث رقم : 3702، و مقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 26، الحديث رقم : 2407.

30. عَنْ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ أَنَّ عُثْمَانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ حِيْنَ حَصَرُوْهُ فَقَالَ : أَنْشُدُ بِاﷲِ رَجُلاً سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ الْجَبْلِ حَيْنَ اهْتَزَّ فَرَکَلَهُ بِرِجْلِهِ وَ قَالَ : اسْکُنْ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدَانِ وَ أَنَا مَعَهُ فَأَنْشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُ بِاﷲِ رَجُلاً شَهِدَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ يَقُوْلُ : هَذِهِ يَدُ اﷲِ وَ هَذَهِ يَدُ عُثْمَانَ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاﷲِ رَجُلاً سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ يَقُوْلُ مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مَتَقَبَّلَةً فَجَهَزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِيْ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاﷲِ رَجُلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ يَزِيْدُ فِيْ هَذَا الْمَسْجِدِِببَيْتٍ فِي الْجَنَّةَ فَأَشْتَرَيْتُهُ مِنْ مَالِيْ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاﷲِ رَجُلاً شَهِدَ رُوْمَةَ تُبَاعُ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ مَالِي فَأَبَحْتُهَا لِإِبْنِ السَّبِيْلِ فَانْشَدَ لَهُ رِجَالٌ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ فِيْ السُّنَنِ.

’’حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کے اوپر سے لوگوں پر جھانکا جس دن باغیوں نے آپ کے گھر کو گھیرا ہوا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : میں اس شخص سے سوال کرتا ہوں جس نے جبل کے روز کا کلام سنا ہو جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کے ہلنے کے وقت ارشاد فرمایا تھا : اے پہاڑ ٹھہر جاؤ کیونکہ تیرے اوپر سوائے نبی صدیق اور دو شہیدوں کے اور کوئی نہیں۔ اور میں اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس شخص سے دریافت کرتا ہوں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیعت رضوان کے دن حاضر تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنے ہی دونوں مبارک ہاتھوں کے لئے) ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اﷲ کا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ سب لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس شخص سے سوال کرتا ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جیش عسرہ کے دن سنا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا ایسا شخص کون ہے جو مال مقبول کو اﷲ کی راہ میں خرچ کرے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ خواہش سنتے ہی آدھے لشکر کی تیاری اپنے مال سے کرا دی۔ سب لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس بات کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس شخص سے پوچھتا ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہو کہ کون ایسا آدمی ہے جو اس مسجد کو جنت میں گھر کے بدلے میں بڑھائے۔ پھر میں نے اس زمین کو اپنے مال کے بدلے میں خرید لیا سب لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی اس بات کی تصدیق کی۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت فرمایا میں اس شخض سے پوچھتا ہوں جو بئرِ رومہ کے سودے کے وقت حاضر تھا میں نے اسے اپنے مال سے خریدا اور مسافروں کے لیے مباح کر دیا تھا۔ حاضرین نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کی بھی من و عن تصدیق کی۔‘‘ اس حدیث کو نسائی نے ’’السنن‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 30 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6 / 236، الحديث رقم : 3609، و النسائي في السنن الکبريٰ، 4 / 97، الحديث رقم : 6436، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 59، الحديث رقم : 420، و مقدسي في الأحاديث المختاره، 1 / 528، الحديث رقم : 395، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 595، الحديث رقم : 1309، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 463، الحديث رقم : 751.

31. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي الْمَنَامِ مُتَعَلِّقًا بِالْعَرْشِ وَ رَأَيْتُ أَبَابَکْرٍ أَخِذًا بِحَقْوَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ رَأَيْتُ عُمَرَ آخِذًا بِحَقْوَي أَبِي بَکْرٍ وَ رَأَيْتُ عُثْمَانَ آخِذًا بِحَقْوَي عُمَرَ وَ رَأَيْتُ الدَّم يَنْصَبُّ مِنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ فَحَدَّثَ الْحَسَنُ بِهَذَا الْحَدِيْثِ وَ عِنْدَهُ قَوْمٌ مِنَ الشِّيْعَةِ فَقَالُوْا : وَ مَا رَأَيْتَ عَلِيًّا فَقَالَ الْحَسَنُ : مَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَخِذًا بِحَقْوَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ عَلِيِّ وَ لَکِنَّهَا رُؤَيَا رَأَيْتُهَا فَقَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ : فَإِنَّکُمْ تَحَدَّثُوْنَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ فِي رُؤْيَا رَآهَا وَ قَدْ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي غَزَاةٍ فَأَصَابَ النَّاسَ جُهْدٌ حَتّيٰ رَأَيْتُ الْکَابَةَ فِي وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْفَرَحَ فِي وُجُوْهِ الْمُنَافِقِيْنَ فَلَمَّا رَأَي ذَالِکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَ اﷲِ لَا تَغِيْبُ الشَّمْسُ حَتَّي يَأتِيَکُمُ اﷲُ بِرِزْقٍ فَعَلِمَ عُثْمَانُ أَنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ سَيُصَدِّقَانِ فَأَشْتَریٰ عُثْمَانُ أَرْبَعَةَ عَشَرَ رَاحِلَةً بِمَا عَلَيْهَا مِنَ الطَّعَامِ فَوَجَّهَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْهَا بِتِسْعَةٍ فَلَمَّا رَأَي ذَالِکَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا هَذَا قَالُوْا : أَهْدٰي إِلَيْکَ عُثْمَانُ فَعُرِفَ الْفَرْحُ فِي وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْکَابَةَ فِي وُجُوْهِ الْمُنَافِقِيْنَ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّي رُؤِيَ بِيَاضُ إِبْطَيْهِ يَدْعُوْ لِعُثْمَانَ دُعَاءً مَا سَمِعْتُهُ دَعَا لِأَحَدٍ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ بِمِثْلِهِ اللَّهُمَّ أَعْطِ عُثْمَانَ اللَّهُمَّ افْعَلْ لِعُثْمَانَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الْأَوْسَطِ.

’’حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوعرش الٰہی کے ساتھ لپٹے ہوئے دیکھا اور میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوکھ کو پکڑا ہوا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوکھ کو پکڑا ہوا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوکھ کو پکڑا ہوا ہے اور میں نے دیکھا کہ آسمان سے زمین کی طرف خون گر رہا ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ نے جب اس حدیث کو بیان کیا توآپ رضی اللہ عنہ کے پاس شیعوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی پس وہ کہنے لگے اے حسن! تو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کس حال میں پایا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر پسندیدہ انداز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوکھ کو براہ راست پکڑنے والا میرے نزدیک اور کوئی نہ تھا لیکن یہ محض ایک خواب ہے جو میں نے دیکھا ہے پس اس پر ابو مسعود رضی اللہ عنہ بولے اور کہنے لگے کہ تم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس خواب (کی صداقت و حقانیت) کے بارے میں بات کرتے ہو حالانکہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے تو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کو بہت سخت بھوک لگ گئی یہاں تک کہ میں نے مسلمانوں کے چہروں پر افسردگی دیکھی اور منافقین کے چہروں پر خوشی، پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا : خدا کی قسم سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے میرا اﷲ تمہیں رزق عطا فرما دے گا۔ پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا کہ عنقریب اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رزق عطا فرمائیں گے تو آپ رضی اللہ عنہ نے چودہ سواریاں اس کھانے کے ہمراہ جو ان پر لدا ہوا تھا خرید لیں اور ان میں سے نو سواریوں کا رخ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف موڑ دیا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سواریاں دیکھیں تو فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی طرف ہدیہ بھیجا ہے۔ پس اس ہدیہ کے بعد مسلمانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور منافقین کے چہروں پر افسردگی چھاگئی اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کی سفیدی نظر آرہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے ایسی دعا کی کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد میں نے آج تک ایسی دعا کسی کے لئے نہیں سنی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے، اے اﷲ! عثمان کو یہ عطا کر اے اﷲ! عثمان کے لئے یہ کر دے، عثمان کے لئے وہ کر دے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ اور المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 31 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 7 / 196، الحديث رقم : 7255، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 249، الحديث رقم : 694، وهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 96، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 234، الحديث رقم : 287.

Share: