عطا شدہ سونے سے حصولِ برکت

Share:

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کسی بھی شے کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے اور حتی المقدور اسے ضائع نہ ہونے دیتے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دینار بطور معاوضہ کسی صحابی کو دیئے تو انہوں نے انہیں بھی باعث خیر و برکت سمجھ کر سنبھال کر رکھے اور آگے خرچ نہیں کئے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں : میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب میرے پاس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تو پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : جابر بن عبداللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ایک سُست اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چھڑی کے متعلق فرمایا تو میں نے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہی اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اونٹ کو خریدنا چاہا تو میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! یہ آپ ہی کا ہے، یہ بلا معاوضہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خریدنے پر اصرار کیا اور فرمایا کہ میں نے چار دینار کے عوض اسے تم سے خرید لیا ہے اور مجھے مدینہ منورہ تک اس پر سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔۔۔ ۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يا بلال، اقضِه و زِدهُ.

’’اے بلال! (جابر کو) اس کی قیمت دو اور اس میں زیادتی کرو۔‘‘

حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چار دینار اور ایک قیر اط سونا زیادہ دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

لا تُفارِقنُی زيادةُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. فلم يکنِ القيراط يُفارق جراب جابر بن عبداﷲ.

بخاري، الصحيح، 2 : 810، کتاب الوکالة، رقم : 2185
مسلم، الصحيح، 3 : 1222، کتاب المساقاة، رقم : 1600
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 314، رقم : 14416
ابن حبان، الصحيح، 11 : 279، رقم : 4911
ابوعوانه، المسند، 3 : 253، رقم : 4849
ابو يعلی، المسند، 3 : 413، رقم : 1898

’’اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا (ایک قیراط) سونا مجھ سے کبھی جد ا نہ ہوتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اور (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ ) وہ ایک قیراط (سونا) جابر بن عبداللہ کی تھیلی میں برابر رہتا، کبھی جدا نہ ہوا۔‘‘

خلاصۂِ کلام

اوپر بیان کردہ تمام روایات جو احادیثِ پاک کی معتبر کتب سے ماخوذ اور صحیح ہیں، اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ انبیاء و صالحین سے منسوب آثار و تبرکات فیض رساں اور پُرتاثیر ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو تبرکاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے اس سے ان کا مقصد انہیں برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ وہ انہیں دافع آفات و بلیات سمجھتے تھے اور ان کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے۔ ان روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے ان آثار و تبرکات سے فیوض و برکات حاصل کئے اور مقاصدِ جلیلہ پورے کئے۔

Share: