عصا مبارک سے حصولِ برکت

Share:

حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول سفیان بن خالد الھذلی کا کام تمام کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان بن ھذلی) کو قتل کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا : اے عبداللہ بن انیس! اسے اپنے پاس رکھ، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے سامنے نکلا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھو۔ لوگوں نے (مجھے) کہا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو کہ کیا تم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس تو نہیں کرو گے؟ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

آية بيني و بينک يوم القيامة، أن أقل الناس المنحصرون يومئذ يوم القيامة. فقرنها عبداﷲ بسيفه فلم تزل معه حتي إذا مات، أمر بها فصبت معه في کفنه ثم دفنا جميعاً.

احمد بن حنبل، المسند، 3 : 496
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 51
مقدسي، الآحاديث المختارة، 9 : 30، رقم : 13
ابويعلي، المسند، 2 : 202، رقم : 905
بيهقي، السنن الکبری، 3 : 256، رقم : 5820
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 203
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 208
ابن هشام، السيرة النبوية، 6 : 31
ابن حبان، الصحيح، 16 : 115، رقم : 7160
هيثمي، موارد الظمان، 1 : 156، رقم : 591

’’قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداﷲ بن انیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے اور پھر ان کے ساتھ ان کے ساتھ یکجا دفن کر دیا جائے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے :

أنه کانت عنده عصية لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فمات فدفنت معه بين جنبه و بين قميصه.

ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 6
هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 45

’’کہ ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ (چھڑی) ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔‘‘

آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کی سزا

قاضی عیاض رضی اللہ عنہ ’الشفا (2 : 621)‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أن جَهْجَها الغِفَاری أخَذَ قضيبَ النبیِّ صلي الله عليه وآله وسلم من يد عثمان ص، و تناوله لِيکسِره علي رُکبته، فصاح به الناسُ، فأخذته الأکِلَة في رُکبته فقطعها، و مات قبل الْحَولِ.

قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفي، 2 : 621
بخاري، التاريخ الصغير، 1 : 79، رقم : 311
عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 1 : 519

’’جھجاھا غفاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصا مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑنے کی (مذموم) کوشش کی لیکن لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ پھر (اس کو اس بے ادبی کی غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ اُسی وجہ سے سال سے کم عرصہ میں مر گیا۔‘

Share: