کمبل مبارک سے حصولِ برکت

Share:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کے پاس وہ کمبل محفوظ تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا۔ آپ رضی اﷲ عنھا صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو اس کی زیارت کرواتی تھیں۔

حضرت بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

أخرجت إلينا عائشة رضي اﷲ عنها کساء ملبدا و قالت : في هذا نزع روح النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2941
عسقلاني، تغليق التعليق، 3 : 468

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھانے ایک موٹا کمبل نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال اس مبارک کمبل میں ہوا تھا۔‘‘

یہ روایت حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے :

دخلت علی عائشة فأخرجت إلينا إزارا غليظا مما يصنع باليمن، و کساء من التي يسمونها الملبدة، قال : فأقسمت باﷲ، إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قبض في هذين الثوبين.

مسلم، الصحيح، 3 : 1649، کتاب اللباس والزينه، رقم : 2080
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2941
ابوداؤد، السنن، 4 : 45، کتاب اللباس : رقم : 4036
ابن ماجه، السنن، 2 : 1176، کتاب اللباس، رقم : 3551
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 131، رقم : 25041
ابن حبان، الصحيح، 14 : 593، رقم : 6623 – 6624
ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 174، رقم : 24905
ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 78، رقم : 34323
ابو يعلي، المسند، 7 : 407، رقم : 4432
ابو يعلي، المسند، 8 : 357، رقم : 4943
ابن راهويه، المسند، 3 : 750 – 751
ابو عوانه، المسند، 5 : 239، رقم : 8547 – 8548
ابن جعد، المسند، 1 : 452، رقم : 3084
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 170، رقم : 1460

’’میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس گیا انہوں نے یمن کا بنا ہوا ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور ایک چادر نکالی جس کو مُلَبَّدہ (پیوند لگی ہوئی) کہا جاتا ہے۔ پھر انہوں نے اﷲ کی قسم کھا کر کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی دو کپڑوں میں وصال فرمایا تھا۔‘‘

چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ شفایاب ہوئے

صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جنکی بناء پر امراء اور سلاطینِ وقت ان کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سر راہ اللہ کے ایک نیک بندے سے آپ کی ملاقات ہو گئی، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ اس کا آپ نے نفی میں جواب دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہتے اور اسی دوران کچھ نعتیہ اشعار بھی کہے۔

پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضے میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لا دوا کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے۔ اگلے دن صبح صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔

أمن تذکر جيران بذی سلم
مزجت دمعا جری من مقلة بدم

’’کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟‘‘

آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ جس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زد خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔

خرپوتی، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3
تهانوی، نشر الطيب فی ذکر النبی الحبيب، 299 – 300

قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی تھی اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوئے لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔

برکاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی جاری و ساری ہیں اور جس نے اس قصیدہ کو درمان طلبی کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا اللہ رب العزت نے اسے بامراد کیا۔ اس کی برکت سے بہت سوں کو فالج سے صحت یابی اور آشوب چشم کی شدت سے نجات ملی اس طرح بہت سے دیگر پریشان حال لوگوں کے دنیوی و دنیاوی امور آسان ہوئے۔

Share: