لعابِ دہن سے حصولِ برکت

Share:

مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔

1۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :

بِسم اﷲ، تُربةُ أرضِنا، بريقة بعضنا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذنِ رَبِّنا.

بخاری، الصحيح، 5 : 2168، کتاب الطب، رقم : 5413
مسلم، الصحيح، 4 : 1724، کتاب السلام، رقم : 2194
ابوداؤد، السنن، 4 : 12، کتاب الطب، رقم : 3895
ابن ماجه، السنن، 2 : 1163، کتاب الطب، رقم : 3521
نسائی، عمل اليوم والليلة، 1 : 559، رقم : 1023
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661
حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8266
ابن حبان، الصحيح، 7 : 238، رقم : 2973
ابویعلی، المسند، 8 : 22، رقم : 4527
بغوی، شرح السنة، 5 : 224، رقم : 1414

’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ’’ہم میں سے کسی کے لعاب دہن سے‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دم فرماتے وقت مبارک لعابِ دہن لگایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث کا مطلب ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت پر لے کر زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے اسے تکلیف یا زخم کی جگہ پر ملتے اور ملتے ہوئے حدیث میں مذکورہ بالا الفاظ ارشاد فرماتے۔‘‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے ہر بیماری میں دم کرنے کا جواز ثابت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے درمیان یہ امر عام اور معروف تھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی انگلی مبارک زمین پر رکھنا اور اس پر مٹی ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دورانِ دم ایسا عمل کرنا درست اور جائز ہے۔۔ ۔ ۔ اور بیشک اس سے اسماءِ الٰہی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہے، پھر دم اور اسماء مبارکہ وغیرہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘

عسقلانی، فتح الباری، 10 : 208

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھٹی دلواتے

مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ملتی ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ دوجہانوں کے والی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔

2۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :

أنها حَملتْ بعبد اﷲ بن الزبير، قالتْ : فخرجتُ و أنا مُتِمٌّ، فأتيتُ المدينةَ فنزلتُ بقُبَاء، فولدتهُ بقُباء، ثم أتيتُ به النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضَعتُه فی حِجرِه، ثم دعا بتمرة، فَمَضَغَهَا، ثم تَفَل فی فيه، فکان أوّلَ شئ دخل جوفَه ريقُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، ثم حَنَّکَه بتمرة، ثم دعاله و بَرَّکَ عليه.

بخاری، الصحيح، 3 : 1422، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3697
بخاری، الصحيح، 5 : 2081، کتاب العقيقة، رقم : 5152
مسلم، الصحيح، 3 : 1691، کتاب الآداب، رقم : 2146
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26983
حاکم، المستدرک، 3 : 632، رقم : 6330
بیهقی، السنن الکبری، 6 : 204، رقم : 11927
ابن ابی شيبه، المصنف، 5 : 37، رقم : 23483
ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 346، رقم : 36622
شیبانی، الآحاد والمثانی، 1 : 413، 412، رقم : 573 – 574 – 575
بخاری، التاريخ الکبير، 5 : 6، رقم : 9
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 1 : 764
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 906، رقم : 1535
ابن حبان، الثقات، 3 : 212، رقم : 707
ابونعيم، حلية الأولياء : 1 : 333 (ہشام بن عروہ اور فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے)

ابن حبان، مشاهير علماء الأمصار، 1 : 30، رقم : 154

’’کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کے ساتھ حاملہ تھیں انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں اتری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے پھر میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچہ کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘

4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

ذهبتُ بِعبدِ اﷲ بن أبی طلحة الأنصاری إلی رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم حين وُلِدَ، و رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في عَبَاءَ ةٍ يَهْنأُ بَعيرًا له فقال : هل معکَ تمرٌ؟ فقلتُ : نعم، فناولتهُ تَمَراتٍ، فألقاهُنَّ في فيه فَلاکَهُنَّ، ثم فَغَرَفا الصَّبِیَّ فمَجَّه في فيه، فجعل الصبي يَتَلَمَّظُهُ، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الأنصارِ التمر. و سماه عبدَ اﷲِ.

مسلم، الصحيح، 3 : 1689، کتاب الأداب : رقم : 2144
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 175، 212، 287، رقم : 12812، 13233، 14097
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 305
ابن حبان، الصحيح، 10 : 393، رقم : 4531
ابويعلي، المسند، 6 : 37، رقم : 3283
ابوداؤد، السنن، 4 : 288، کتاب الأدب، رقم : 4951
ابن سعد، الطبقات الکبری، 8 : 433
عبد بن حميد، المسند، 1 : 393، رقم : 1321
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 429، رقم : 1254
ابوعوانه، المسند، 5 : 240، رقم : 8550

’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کا منہ کھول کر اسے بچہ کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘

7۔ قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونے کی خواہش

عالئ مرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرات شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اُنہیں قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونا نصیب ہو، تاکہ عالم برزخ میں بھی قرب و وصالِ محبوب کے لمحات سے ان کی روحوں کو تسکین ملے۔ یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس نیک خواہش کے بارے مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدنی عند رأسه و قال لی : يا علي! إذا أنا مت فغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ و حنطوني و اذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده. قال : فاغسل و کفن و کنت أول من يأذن إلي الباب فقلت : يا رسول اﷲ! هذا أبوبکر مستأذن، فرأيت الباب قد يفتح، و سمعت قائلا يقول : ادخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.

حلبي، السيرة الحلبية، 3 : 493
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 492
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 436

’’جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘

اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقائے کریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے۔ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوسیدہ عائشہ رضی اﷲ عہنا کے پاس اجازت لینے کے لئے بھیجا اگرچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا خود یہ خواہش رکھتی تھیں اور انہوں نے فرمایا ہوا تھا کہ وہ اس جگہ کو اپنی تدفین کے لئے پسند کرتی ہیں مگر وہ فرمانے لگیں کہ اب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

ما کان شئ أهم إليّ من ذالک المضجع فإذا قبضت فاحملونی ثم سلموا، ثم قل : يستأذن عمر بن الخطاب فإن أذنت لي فادفنوني، و إلا فردوني إلي مقابر المسلمين.

بخاري، الصحيح، 1 : 469، کتاب الجنائز، رقم : 1328
ابن حبان، الصحيح، 15 : 353
بيهقي، السنن الکبریٰ، 4 : 58
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 290
نووي، تہذيب الاسماء، 2 : 332
شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 159

یہ روایت حاکم نے’ المستدرک( 3 : 99، رقم : 4519 )‘ میں ابن ابی شیبہ نے’ المصنف (7 : 440، رقم : 37074)‘میں اور ابن سعدنے ’الطبقات الکبریٰ ( 3 : 363) میں رواۃ اور الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کی ہے۔

’’میرے نزدیک اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جب میں انتقال کرجاؤں تو مجھے اٹھا کر (اس جگہ پر) لے جانا، سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ (سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) اجازت دے دیں تو دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘

سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس خواہش کی توجیہ صرف یہی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دفن ہونا باعث برکت سمجھتے تھے۔

Share: